Copyright © 2023, Professor Muhammad Zamman Muzter, all rights reserved
You are free to redistribute this book in pdf format. If you make use of any part of this book you must give appropriate credit to the author. You may not remix, transform, or build upon the material without permission from the author. You may not use the material for commercial purposes
علاقہ اگرور میں ادبی شعری روایت
کسی ملک، قوم اور علاقہ کی ایک مخصوص تاریخ ہوتی ہے جس میں اُس ملک، قوم اور علاقہ کے سیاسی، تہزیبی، علمی ادبی، مذہبی اور ثقافتی خدوخال اور احوال و اثار محفوظ ہوتے ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ علاقہ اگرور کی کوئی مخصوص جامع تاریخ میری نظر سے نہیں گزری، اس لئے میں اس علاقہ کے علمی ادبی اور ثقافتی احوال کما حقہ بیان نہیں کرسکوں گا۔
اس ضمن میں، میں محقق پروفیسر بشیر احمد سوز کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب (ہزارہ میں اردو زبان وادب ) کی تاریخ میں علقہ اگرور کے انیسویں صدی کے اواخر کے چار شعراء کا مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے۔
ان میں پہلا شاعر گوہر آمان خان گوہر تھا وۂ تین زبانوں اردو عربی ، فارسی کا شاعر تھا۔ وہ صاحب دیوان شاعر تھا ان کایہ فارسی دیوان ان کی وفات (۱۸۹۴) کے بعد ان کے بھائی صوفی عزیزالرحمٰن نے شائع کیا تھا۔ یہ دیوان ایک سو بیس صفحات پر مشمل تھا۔
اگرور کا دوسرا شاعر صوفی عزیزالرحمٰن تھا جو تین زبانوں اردو، پشتو فارسی کا شاعر تھا مگر ان کا کوئی مجموعہ منظرعام پر نہیں آیا۔ البتہ بھائی گوہر آمان گوہر پر لکھا ہوا مرثیہ موجود ہے۔
تیسرا اگرور کا شاعر امیر زمان خان امیر تھا جو شمدھڑہ کا رہنے والا تھا۔ یہ بھی تین زبانوں کا شاعر تھا۔ اس کی صرف ایک غزل دستیاب ہے۔ اگرور کا چوتھا شاعر عمر خان عمر تھا جو شاہکوٹ کا رہنے والا تھا اس کا کلام (گلزار عمر) اسکے بیٹے نے شائع کیا تھامگر نایاب ہے۔ اس کی بھی ایک غزل دستیاب ہے۔ میں ان چاروں حضرات کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اگرور میں سب سے پہلے علم و ادب کی بنیاد ڈالی اور اہلیان اگرور کو ادب و ثقافت سے روشناس کیا۔ میں ان چارو شعراء کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ چاروں مرحوم ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے بارگاہ الہی میں دعائے مغفرت مانگتا ہوں۔ ﷲ تعالےٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ ان شعراء کی وفات بعد اگرور میں شاعر تو پیدا ہوئے مگر کوئی بڑا نام سامنے نہیں ایا۔ تقریباً ایک صدی بعد بیسویں صدی کے نصف میں اگرور کا اقبال پھر چمکا اور اگرور کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک بہت بڑے شاعر محمد اقبال خان نے جنم لیا۔ اقبال نہ صرف اگرور بلکہ ھزارہ پختون خوا مې مقبول ہیں، ان کا غزلیات کا دیوان ۱۳ سو سے زائد غزلیات پہ مشتمل ہے۔ یہ دیوان پشتو کے نئے حروف تہجی یعنی ۴۴ حروف جو باڑہ گلی میں مقرر کئے گے تھے پر مکمل دیوان ہے۔ اس میں حرف(ژ) کو بھی برتا گیا ہے جو شاید اس سے قبل کسی بھی شاعر نے نہیں برتا، ڈیڑھ سو زائد پابند او ازاد نظمیں، دو سو پشتو ماھیے کوکې کے نام سے, ھائیکو، شکرې، ۲۱ چاربېتې، چاربیتہ میں ہر قسم موجود ہے ان میں دو زنځیرۍ چاربیتې ہیں جو اس سے قبل ہزارہ میں کسی نے نہیں لکھی، نیمکۍ، لوبہ، بدلې، ملی نغمے، قطعات، رباعی اور کچھ ټپے غرض شاعری کی کوئی صنف بھي ان کی دسترس سے باھر نہیں انکی چھ کتابیں تا حال چھپ چکی ہیں۔ جن کے نام زیل ہیں (۱) رښتینې جذبې (۲) تغزل (۳) د وصال جام (۴) چاربېتې پوھنہ (۵) حسېن ملک پوری (تحقیق وتنقید) (۶) کوکې اس کے علاوہ (۷) حافظ الپوری (تحقیق و تنقید ) (۸) ډیوہ او غزل (تذکرہ ) (۹) کُړچ(د پښتو اولسی شاعری) (۱۰) دیوان (۱۱) “د پښتو اولسی شاعرۍ اصطلاحات (۱۲) مشکل کشاءِ طالبان اپنے تقریظ کے ساتھ (۱۳) ملغلرې تحقیقی اور تنقیدی مضامین آن لائن پړھی جاسکتی ہیں۔ کچھ کتابیں زیر طبع ہیں۔ پشتو عوامی شاعری کی سمجھ میں وہ اتھارٹی ہیں۔ حال ہی میں انکے دو مضامین غزل کے ۷۵ سال اور چاربیتہ کے ۷۵ سال پاکستان اکیڈیمی ادبیات کے میگزین میں چھپے ہیں۔
کوکی اقبال خان کے پشتو ماھیا کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ ماھیا پشتو زبان میں ان کی جدید اور مقبول ایجاد و اختراع ہے۔ خدا کرے کہ یہ ماھیا اردو ماھیے کی طرح قبولیت کا درجہ حاصل کرے۔ غزلیات میں غیر منقوطہ، ذوالقافتین، ذات القافتین، صنائع بدائع اور کئی طرح کی فن کاری نظر آتی ہے یہاں تک کہ ایک غزل پہ لب بستہ نہیں ہوتے۔
شاعری پاکیزہ جذبات، نفیس خیالات او عمیق محسوسات کی پُر معانی لفظیات میں تخلیقی مہارت کے ساتھ سمونے کا ایک فن ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال خان کی شاعری انکے جذبات، خیالات اور محسوسات کی بہترین ترجمان ہے۔
بنیادی طور پر اقبال خان غزل کے شاعر ہیں، انکی غزلوں میں سادگی، نفاست، شوخی و رنگینی نزاکت، گھلاوٹ، مترنم تغزل اور معنی افرینی پائی جاتی ہے۔ مضامین کے اعتبار سے بھی ان کی غزل میں زندگی کی رنگا رنگیاں، سماجی حالات رسم روایات اپنے عصر کی آواز سیرت اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا اظہار بھی شامل ہے۔
انکی غزلیات میں کلاسیکی روایت کے ساتھ جدت کا امتزاج بھی ملتا ہے۔ روایت ہی سے جدت جنم لیتی ہے شاعری روایت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی جسطرح موت کے بغیر زندگی کا تصور خزان کے بغیر بہار کا تصور شام کے بغیر صبح کا تصور نا ممکن ہے اسی طرح روایت کے بغیر شاعری کا تصور بھی محال ہے۔ اقبال خان نے پشتو شاعری کی جملہ اصناف کو خوب مہارت سے برتا ہے۔
اقبال خان کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پختون ملی حمیت (پختون ولی) کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر پشتون قوم اور پشتو کے سر کو فخر سے بلند کیا ہے۔
کسی بڑے شاعر کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اسکی شاعری پڑھنے سننے والوں کو اپنی سرگزشت معلوم ہوتی ہے اسی خوبی کی بنا پر اقبال خان علاقہ اگرور، ہزارہ اور پختون خوا میں ایک مقبول اور بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔
اقبال خان کی شاعری کے اسی وصف اور خوبی(از دل خیزد و بر دل رہزد) نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے انکی پچاس پشتو غزلیات کو اردو میں منتقل کردیا۔ اگر یہ ترجمہ مقبول خاطر ہو تو تو شکریہ اگر میری کم فہمی سے ترجمہ میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو معزرت خواہ ہوں۔
تُو آپ ہی زبان زد عالم ہے ورنہ میں
یک حرف آرزو ئے بلب نا رسیدہ ہوں
پروفیسر محمد زمان مضطر
انتساب
اردو پشتو کا ذوق رکھنے والے دوستوں کے نام
دو آتشه
١
څۂ مې د حالاتو بې رحمی وژنی
څۂ مې د خوبانو بې رخی وژنی
ھم راسرہ دم د خپلولۍ وھی
ھم لکہ پہ شان مې د پردی وژنی
طمع چې د ژوند کوی ناپوھہ دے
چالہ چې پخپلہ زندګی وژنی
ستا پہ شان لہ چل ول مې زدہ نۂ دے
مالہ خپلہ ډېرہ سادګی وژنی
مخکښې دې پہ ول د زلفو مړ کړمہ
اوس مې ترنہ یارہ آذادی وژنی
موټی کښې مې ساہ د جادوګرې دے
خوښہ ئې دہ چې څۂ رنګې طوطی وژنی
داسې خوږ دښمن اقبالہ چرتہ دے
څومرہ پہ خواږہ کښې عاشقی وژنی
کچھ تو ہوا ہوں وقت کی میں بیدلی سے قتل
او کچھ ہوا ہوں حسن کی میں بے رخی سے قتل
اپنائیگی کا دعویٰ بھی کرتے ھیں چند لوگ
کرتے بھی ہیں مگر وہ مجھے دشمنی سے قتل
ناداں ہے وہ جو کرتا ہے جینے کی آرزو
ہوتا ہے آپ اپنی ہی وہ زندگی سے قتل
تیری طرح فریب تو اتے نہیں مجھے
بس ہو رہا ہوں اپنی ہی میں سادگی سے قتل
پہلے سے تیرے گیسو ۓ پرخم کا ہوں قتیل
اب ہورہا ہوں زلف کی آزادگی سے قتل
مُٹھی میں میری زندگی اک جادوگر کی ہے
طوطی کی مرضی اب کرے جس راہ روی قتل
اقبال ایسا میٹھا عدو بھی نہیں کوی
کرتی ہے مجھے عاشقی جس دل لگی سے قتل
۲
زما چمنہ ستا نصیب کښې خزان څو پورې دے
لوټ شوې بې درېغہ د زاغانو دوران څو پورې دے
پرھر پرھر زخمی زخمی شوې زړۂ پہ خپلو غشو
دا پہ لاسونو د اغیار کښې کمان څو پورې دے
نجمومی اوګورہ د لاس کرښې پہ غور زما
پہ دښمنۍ کښې راسرہ چې اسمان څو پورې دے
ما چې لېدلی حالات چرتہ ښہ شوی نۂ دي
وپښتم څوک د ښہ کېدلو امکان څو پورې دے
مونږہ پہ وینو اوبۂ خور کړو د پردو د پټو
زمونږ د مشر ګاڼہ شوے ایمان څو پورې دے
اوږی روحونہ نۂ مړېږی کہ دنیا ھم اوخوری
پہ خولو وینو د خوارانو تالان څو پورې دے
څوک چې راځی بډې راکاږی پکښې لوبې کوی
اقبالہ ملک زما د لوبو مېدان څو پورې دے
مرے چمن تری قسمت میں ہے خزاں کب تک
رہیں گے تجھ میں یہ زاغوں کے اشیاں کب تک
ہے صد فگار ترا دل جو اپنے تیروں سے
بدست غیر رہیگی تری کماں کب تک
نجمومی دیکھ مرے ہاتھ کی لکیروں کو
رہیگا ہمراہِ دشمن یہ اسماں کب تک
بدل بھی جائیں گے موسم مرے چمن کے کیا
میں پوچھتا ہوں یہ امکاں ہے یہاں کب تک
زمینِ غیر کو کب تک لہو پلائیں گے
ہے میرِ شہر کے ایماں کا امتحاں کب تک
جہاں نگل کے بھی روحوں کی بھوک مٹتی نہیں
رہیں گے ہم پہ یہ خونخوار حکمران کب تک
یہاں جو اتا ہے وہ کھیلتا کھیل اقبال
رہیگا گا ملک مرا کھیل کا میداں کب تک
۳
بې لہ عشقہ ژوندون څنګہ
یو تصویر لکہ بې رنګہ
عشق کښې سر نہ تېرېدے شم
تېرېدے نۂ شم لہ ننګہ
کہ رانجا یم خو پښتون یم
بدلولے نۂ شم ډنګہ
د اشنا د مخ پہ شمع
سول زدہ کړہ لہ پتنګہ
زړۂ پہ مینہ باندې رام شی
حاصل ھیڅ نۂ وی لہ جنګہ
پہ کرم مې زړۂ صېقل کړہ
لرې کړۂ مې لہ زړۂ زنګہ
د مذھب نوم مې پښتو دے
پہ یو خم کښې دواړہ رنګہ
سرمدی ساز دے پہ عشق کښې
چې نۂ نے لری نۂ چنګہ
زندگی کیا ہے نہ ہو عشق کی جب اس میں ترنگ
عمر بے عشق ھے تصویر ہو جیسے بے رنگ
عشق میں سر سے گزر جانا ہے اسان بہت
کر نہیں سکتا مگر عشق پہ قربان میں ننگ
گر چہ رانجھا ہوں میں پختون ہوں لیکن پھر بھی
کر نہیں سکتا ہوں تبدیل میں پختون کے ڈھنگ
شعلہِ شمع رخِ یار کا شیدا ہے اگر
ہو جا قربان کسی روز تو مانندِ پتنگ
دل ہوا کرتے ہیں بس پیار محبت سے رام
بجز افسوس نہیں اور کوئی حاصلِ جنگ
کر دے صیقل تو اسے اپنے کرم سے یا رب
دور کر دے تُو قلبِ مکدر سے زنگ
مرا مذھب بھی تو پختو ہی کا دوسرا نام
یعنی اک بادہِ خم کے ہیں یہی دونوں رنگ
سرمدی ساز ہے وہ عشق میں پوشیدہ کہ جو
نہ کسی ساز کا ہے محتاج نہ محتاجِ چنگ
۴
ول دې د زلفینو لېلیٰ چرتہ دے
شپہ ډېرہ اوګدہ شوہ صبا چرتہ دے
پراتۂ پہ انتظار ورتہ زخمونہ دي
کلہ بہ راځی مسیحا چرتہ دے
تۂ چې وائې سپرلے دے څنګہ اومنم
اوګورئ یو ګل پہ خندا چرتہ دے
رو رو ئې عادت کړمہ د غم سرہ
داسې ستم ګر پہ دنیا چرتہ دے
یار تہ چې سجدہ مې روا اوګرځی
داسې فراخ دلہ مُلا چرتہ دے
ھسې دې اقبالہ پرې باور اوکړو
خوب خو اخر خوب وۂ رښتیا چرتہ دے
ارے وہ خمِ زلفِ لیلیٰ کہاں ہے
شبِ غم کی صبحِ دل ارا کہاں ہے
زمانوں سے ہیں منتظر زخمِ دل
بتائے کوئی وہ مسیحا کہاں ہے
ترے عہد گل کو میں مانو تو کیسے
دکھا دے لبِ گل یہ خندہ کہاں ہے
بنایا ہے جس نے مجھے غم کا عادی
جہاں میں ستمگار ایسا کہاں ہے
روا کر دے سجدہِ جاناں کو مجھ پہ
وہ ملائے قلبِ کشادہ کہاں ہے
یقین کر نہ خوابوں پہ اقبال اتنا
ھر اک خواب سچا نکلتا کہاں ہے
۵
ښہ نۂ شو زمونږہ د وطن موسم
پہ برخہ جوړې شو دا خړ خچن موسم
څوک د خوشحالۍ ټپہ بہ پورتہ کړی
ھر وختې چې وی چرتہ غمژن موسم
نۂ پوھېږم لاس د مالی څومرہ دے
یا دلتہ د ګلو شو دښمن موسم
بیا مې غزلی سترګې رایادې شوې
بیا مې پہ زړۂ جوړ شو د سخن موسم
پہ مخ کښې دې سرخی د حیا وینمہ
څۂ درتہ پہ غوږ کښې اووې نن موسم
سترګې د اقبال ھدو سړې نۂ شوې
لاړو بیا دې تېروت د دیدن موسم
نہ ہوا اچھا میرے وطن کا موسم
لکھا ہے میرے نصیب میں گدلا موسم
گیت خوشیوں کے وہاں گائے گا کوئی کیسے
جب رہا ہونہی غم الود سراپا موسم
حال بربادیِ گلشن کا نہیں کھلتا ہے
باغباں دشمن گلشن ہے یہاں یا موسم
یاد پھر اگئیں ناگہ مجھے چشمانِ غزال
چھا گیا پھر میرے دل پر ہے غزل کا موسم
اوس کے چہرے پہ ہے کچھ آج حیا کی سرخی
کہہ گیا کان میں آج کے ہے یہ کیا موسم
آنکھیں اقبال کی ٹھندی ہی نہ ہونے پائیں
اور گزر ہی گیا دیدار کا پیارا موسم
۶
پہ یو خس غوندې ھوا دې زندګی دہ
تا ګڼلې چۂ دنیا دې زندګی دہ
یو ساعت کښې پہ خندا دې زندګی دہ
بل ساعت کښې پہ ژړا دې زندګی دہ
خاتمہ دې پہ یو څیرہ د نمر شی
لکہ پرخہ د صبا دې زندګی دہ
د چارپاېو ، ځناورو پہ مثال دہ
کہ د نفس پہ رضا دې زندګی دہ
دومرہ ناز او تکبر دې دا پہ څۂ دے
چې د بل چا پہ عطا دې زندګی دہ
دومرہ زړۂ ورسرہ مۂ تړہ غافلہ
چې پوھېږې بې بقا دې زندګی دہ
ما اقبال تہ یوہ ټوقہ غوندې ښکاری
تا ګڼلې چې رښتیا دې زندګی دہ
کچھ نہیں ہے موجہِ بادِ فنا ہے زندگی
تو نے سمجھا کہ آبِ بقا ہے زندگی
ایک لمحے میں گلِ خندہ نما ہے زندگی
دوسرے لمحے میں گریہ وبکا ہے زندگی
ختم ہوتی ہے بیک موجِ طلوعِ افتاب
یعنی مثلِ شبنمِ بادِ صبا ہے زندگی
زندگی کرتا بسر ہے وہ بہائم کی طرح
خواہشات نفس میں جو مبتلا ہے زندگی
یہ تری اپنی نہیں تُو اس پہ ہے مغرور کیوں
جان لے یہ بات انعام و عطا ہے زندگی
دل لگا اتنا زیادہ بھی نہ غافل اس کے ساتھ
گر سمجھ اتی ہے تجھ کو بے بقا ہے زندگی
لگتی مجھ اقبال کو ہے زندگانی اک مذاق
تو سمجھتا ہے اسے لا انتہا ہے زندگی
۷
د اشنا قیصہ زړہ شوہ څۂ نااشنا خبرہ وکړہ
ماتہ لوږہ تندہ ستایہ دا زما خبرہ خبرہ وکړہ
څو بہ سترګې د شېرنې د لېلیٰ زلفې بہ ستایې
پہ دروغو نۂ غولېږمہ رښتیا خبرہ وکړہ
تۂ کۂ مرې د چا د پارہ دا ستا دپارہ مری څوک
دا خو ستا د مستۍ غم دے د دنیا خبرہ وکړہ
پہ تکرار د زلفو شونډو دا غوږونہ مې پاخۂ شو
څۂ نااشنا موضوع پېدا کړہ څۂ نااشنا خبرہ وکړہ
مظلومانو لہ ورکړی چې ظالم سماج دی بیا بیا
د ھغہ ژور زخمونو د دوا خبرہ وکړہ
د چا ګلو نہ زړۂ دک دے ورتہ نۂ ګوری پہ سمہ
څوک ازغو باندې سوری شُو د ژړاخبرہ وکړہ
ستا خبرو کښې اقبالہ ماتہ خپل عکسونہ ښکاری
ماتہ بیا خبرہ وکړہ ماتہ بیا خبرہ وکړہ
چھوڑ قصہ یار کا کچھ ان سنی سی بات کر
میرے بھوکے پیٹ میری تشنگی کی بات کر
مدحِ زلفِ لیلیٰ و شیرین کریگا کب تلک
چھوڑ دے یہ جھوټی باتیں کوئی سچی بات کر
تجھ پہ کوئی جان دے یا تو کسی پر جان دے
اپنی مستی کی نہیں دنیا کی کوئی بات کر
باتیں زلف و لب کی سن سن کر ہوے ہیں کان سن
جو کسی نےکی نہ ہو پہلے اب ایسی بات کر
زخم خوردہ ہیں سماجِ وقت سے مظلوم جو
آج اُنکے درد اور درماں کی کوئی بات کر
چھوڑ اُن کو جن کا ہے پھولوں سے بھی دل بھر گیا
خار سے زخمی ہیں جو اُن کی فغان کی بات کر
عکس اپنا دیکھتا ہوں میں تری ہر بات میں
مجھ سے تو اب بار بار اقبال اپنی بات کر
۸
ھغہ مستہ مې بېګا پہ پالنګ راغلہ
د مستۍ نہ مې دنیا پہ غورځنګ راغلہ
ھوش حواس ئې پہ بوسہ لۂ مانہ یوړل
د شراب وہ پېالہ کہ د بھنګ راغلہ
موسیقار بہ کلہ ھسې نغمې وکړی
د امېل او د پائلو پہ شړنګ راغلہ
تورہ ډال مې ورتہ کېښودۂ تسلیم شوم
چې زما سرہ د مینې پہ جنګ راغلہ
خوشحالی مې ھغہ وختې دیدنی وہ
چې کونترہ د زاړۂ باز پہ چنګ راغلہ
کلہ یار تہ کلہ ځان تہ حېران ګورم
شھزادګۍ نن پہ دونھہ د ملنګ راغلہ
ووۂ رنګونو کښې تقسیم شو رڼا سپینہ
ګل رنګینہ ھسې شان او پہ رنګ راغلہ
د عشق اور نہ دې خلاصے اقبالہ نیشتے
پہ نصیب دې نصیبہ د پتنګ راغلہ
وہ مستِ نازگئی شب سوئےِ پلنگ ائی
تو جان میں جوششِ دریا کی اک ترنگ ائی
اُڑا گئی وہ بیک بوسہ میرے ھوش و حواس
وہ جیسے بن کے سراپا شراب وبھنگ ائی
گلے میں ڈال کر امبیل پاؤں میں پائل
مغنی گاتے ہیں کرتی وہ شڑنگ شڑنگ ائی
میں رکھ کے تیغ وسپر اپنی ھار مان گیا
وہ جب بھی کرنے محبت کی مجھ سے جنگ ائی
خوشی سے پھولے سماتا نہیں تھا میں اوس وقت
بہ دستِ باز “ کبوتر جو شوخ و شنگ ائی
کبھی ہم اُنکو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
کہ شھزادی ہے در کلبہِ ملنگ ائی
بٹی ہے روشنی رنگوں میں کہ وہ پھول بدن
بکھرتی ہوئی قوسِ قزح کے رنگ ائی
جنوں کی آگ سے ممکن نہیں فراغ اقبال
ازل سے بن کے ہے یہ قسمتِ پتنگ ائی
۹
څۂ مې د شېخ پہ وېرہ وېرہ زندګی وکړلہ
مزہ کښې پاتې شو ھغوی چې رندګی وکړلہ
ھغہ الزام زما پہ سر باندې بیا ھم راغے
اوس پرې خفہ یم چې مې ولې بزدلی وکړلہ
د مینځ خبرہ چاتہ تا نۂ چاتہ ما وکړلہ
ځکہ شوہ ګرانہ فېصلہ چې چا زیاتی وکړلہ
زما پہ نیز د مینې حق چا ادا کړے نۂ دے
دعویٰ د مینې پہ دنیا کښې ھر سړی وکړلہ
پہ زلزلہ یا پہ طوفان بہ دغہ ښار ورانېږی
فریادی چغہ چوراھا کښې لېونی وکړلہ
د ھغہ بت پہ شان لہ بت اقبالہ جوړنۂ شو
څۂ اوشو دا چې مې ټول عمر ازاری وکړلہ
بہ خوفِ شیخ بسر میں نے زندگی کی ہے
وۂ فائدے میں رہا جس نے میکشی کی ہے
مرے بھی سر پہ وہ الزام آخر آہی گیا
میں اب خفہ ہوں کہ کیوں میں نے بزدلی کی ہے
جو اصل بات تھی تونے کہی نہ میں نے کہی
بنا ہے مسئلہ اب کس نے زیادتی کی ہے
کیا نہیں ہے محبت کا حق ادا کسی نے
ہر اک کا دعویٰ ہے میں نے بھی دل لگی کی ہے
یہ شہر زلزلے طوفاں سے مٹنے والا ہے
چوراہے میں کسی پاگل نے پیشگوئی کی ہے
بت اُس طرح کا تو اقبال ہُو بہو نہ بنا
یہ کیسی تُو نے تمام عمر اذری کی ہے
۱۰
ھیڅ کمال نۂ دے زما ستا عنایت دے
چې بخښلے دې دا درد او محبت دے
زۂ دیدن او وصال غواړمہ د یار خپل
شیخہ ستا د پارہ لوے انعام جنت دے
د شرابو ګُوټ کښې نیشتے شراب خورہ
چې د عشق پہ مدھوشۍ کښې کوم لذت دے
پند بہ ستا ناصحہ څۂ پہ ما اثر کا
ما دعشق د پیر نہ کړے طریقت دے
چې پہ سلو پردو ځان ساتی مستورہ
شوق زما سېوا کوی کۂ ئې صفت دے
ستا د نوم نہ بې مې ھیڅ ھم زدہ نۂ دی
دا زما ذکر اذکار اؤ عبادت دے
اقبال خوښ ځکہ صحرا او پہ ځنګل یم
لہ مجنونہ راتہ پاتې وراثت دے
کمال اپنا نہیں کچھ بھی یہ سب تیری عنایت ہے
کۂ بخشا تو نے مجھ کو عشق میں دردِ محبت ہے
مجھے بس دید و وصلِ یار ہے درکار اے زاھد
تمہارے واسطے سب سے بڑا انعام جنت ہے
نہیں ہے جرعہِ بادہ میں وہ اے رندِ میخانہ
جنون کی بیخودی میں جتنی مستی اور لذت ہے
اثر تیری نصیحت کیا کرے گی مجھ پہ اے ناصح
کہ میں نے کی جنوں کے پیر کامل سے طریقت ہے
اگر چہ سیکڑوں پردوں میں وہ مستور ہو لیکن
بڑھاتی اور میرا شوق وہ محجوب صورت ہے
مجھے اتا نہیں کچھ بھی ترا ہی نام لیوا ہوں
ترا ہی نام میرا ذکر و اذکار و عبادت ہے
میں خوش ہوں اس لیے اقبال صحرا اور جنگل میں
کہ مجنوں سے ملی مجھ کو جنوں کی یہ وراثت ہے
۱۱
نوې قافیې او ردیفونہ نوی
راؤړۂ غزل مې خیالونہ نوی
چرتہ پہ سترګو کښې زما خړ نۂ شی
رالېږہ مالہ تصویرونہ نوی
څۂ عجیبہ غوندې سیلۍ والواتہ
زوړ اشنا ھم زدہ کړۂ لاسونہ نوی
شوندې دې سرې سترګې نرۍ تورې کړہ
راباندې پورې کړہ اورونہ نوی
تۂ ھم د باز پہ شان کوریز کوہ
ھر نوے کال غواړی څانګونہ نوی
د وفا تورے بې معنې غوندې شو
نوے عالم محبتونہ نوی
اقبالہ تا پورې حېران یمہ زۂ
سترګې زړې پکښې خوبونہ نوی
مرے ردیف وقوافی کی رنگتیں نئی ہیں
مری غزل میں خیالوں کی وسعتیں نئی ہیں
جو دھندلائے نگہ میں نہ بھیج وہ تصویر
مری نگاہ کو درکار صورتیں نئی ہیں
ہوا کچھ ایسی چلی ہے پرانے یاروں کے
دلوں میں بھی ہوئی پیدا شرارتیں نئی ہیں
لبوں پہ سرخی لگا اور انکھ میں کاجل
مرے جلانے کی اب یہ صورتیں نئی ہیں
مثالِ باز بدل تو بھی اب لباس اپنا
کہ سال و سال پروں کی ضرورتیں نئی ہیں
گئے پرانی وفاؤں کے سارے ظور طریق
نئے جہان کی اب تو محبّتیں نئی ہیں
میں تجھ پہ حیراں ہوں اقبال اس لئے کہ تری
پرانی انکھوں میں خوابوں کی صورتیں نئی ہیں
۱۲
د ھر غشی نښانہ یم ولې زۂ؟
لہ خردہ بېګانہ یم ولې زۂ ؟
ھر طرف تہ دی زما وینې ارزانې
پہ ھر لاس کښې پېمانہ یم ولې زۂ؟
لہ نفاقہ مې ھر څۂ دی ښہ پوھېږم
بیا ھم خور دانہ وانہ یم ولې زۂ؟
دښمنی چې راسرہ ئې ازلی دہ
مړ د ھغۂ پہ دوستانہ یم ولې زۂ؟
زغلول پرون ظلمات کښې مې اسونہ
نن بې وسہ افسانہ یم ولې زۂ؟
ډېر تارخۂ تارخۂ غمونہ مې پہ زړۂ دی
یو خواږہ شان ترانہ یم ولې زۂ؟
چې موندلی مې ترې ھیڅ نۂ دی اقبالہ
پروت پہ ھغہ استانہ یم ولې زۂ؟
جانے ھر تیر کا ہوں میں نشانہ کیوں؟
اپنے شعور وعقل سے ہوں میں بیگانہ کیوں؟
پیمانہ کیوں ہوں آج میں ہر ایک ہاتھ کا
ارزاں مرے لہو کو ہے سمجھا زمانہ کیوں؟
میں جانتا ہوں کام ہے سب نفاق کا
پھر ہو کے رہ گیا ہوں میں یوں دانہ دانہ کیوں؟
ایا ہوں لیکے جس کی ازل سے میں دشمنی
مجھ کو عزیز اس کا ہے پھر دوستانہ کیوں؟
دوڑائے میں نے گھوڑے تھے ظلمت کے بحر میں
میں آج بے بسی کا بناہوں فسانہ کیوں؟
ہے تلخیِ حیات سے لبریز میرا دل
میں اس کے باوجود ہوں میتھا ترانہ کیوں؟
اقبال جس سے پایہ نہیں مِن نے کوئی فیض
پھر چھوڑتا نہیں ہوں میں وہ استانہ کیوں؟
۱۳
تل پہ لباس ئې غولېدلی یُو مونږ
ځکہ چې ټول لۂ عقلہ پلی یُو مونږ
د مټ د زور زمونږ جھان قائل دے
خو انتشار د کور وژلی یُو مونږ
ستمګر دغہ ھمرہ ډاډہ ځکہ شو
چې ھر ستم وتہ ئې غلی یُو مونږ
ځنو تہ ست ځنې شړی لۂ درہ
ګنی د یو کور د یو کلی یُو مونږ
تندې دمہ کوہ چې پوخ شی یقین
ډېر سرابونو پسې تلی یُو مونږ
چنارہ سېورے دې پہ مونږ رانغے
نھال کړې مونږ او کړېدلی یُو مونږ
عزت پہ چم ګاونډ کښې پاتې نۂ شو
اقبالہ خپل د کور ښاغلی یُو مونږ
کھاتے ہیں ہر لباس سے دھوکہ سراب ہم
نادانی میں ہیں کیونکہ بہت لاجواب ہم
شہرہ ہمارے قوت بازو کا ہے مگر
ہیں گھر کے انتشار سے خانہ خراب ہم
ہمت ستمگروں کی بڑھی ہے اسی لئے
دیتے نہیں ہیں اُن کو ستم کا جواب ہم
اک کو بلاتے ایک کو در سے بھگاتے ہیں
اک گھر کے تو ہیں ورنہ ہمہ افتاب ہم
تھوڑہ سا حوصلہ کہ مکمل یقین ہو
کھائیں گے رہنماؤں سے کب تک سراب ہم
پالا تھا ہم نے ہی تجھے چاؤ سے اے چنار
دے چھاؤں ہم کو کب سے ہیں زیرِعتاب ہم
عزت تو کچھ نہیں ہے محلے پڑوس میں
اقبال اب ہیں گھر ہی میں عزت مآب ہم
۱۴
نۂ پوھېږم چې دا څنګہ اضطراب دے
پہ وصال کښې مې زړۂ ھم لکہ سیماب دے
ھیڅ د ژوند پہ حقیقت باندې پوې نۂ شوم
نۂ پوھېږمہ چې ویښ یمہ کہ خواب دے
اقراری د خپلې مینې پہ ګناہ یم
کار مې نشتہ دے عذاب دے کہ ثواب دے
چې موندلے مې پہ مینہ کښې سرُور دے
حاصل کړے کلہ چا لۂ مئیو ناب دے
پہ رخسار چې دې د زلفو وېښتۂ راشی
پہ ائین کښې ئې کتے شې پېچ وتاب دے
پہ فہرست کښې د عشاقو یم د ښکلی
لږېدلے راسرہ پر د سُرخاب دے
رنګا رنګ پکښې خیالونہ ستا موجزن دي
دا سینہ دہ د اقبال یا کہ دریاب دے
معلوم کچھ نہین کہ یہ کیا اضطراب ہے
بیتاب وصل میں بھی دلِ ناصواب ہے
ائی سمجھ نہ مجھکو حقیقت حیات کی
کیا جانوں میں یہ زیست ہے یا کوئی خواب ہے
قائل ہوں اپنے جرمِ محبت کا مجھکو کیا
کارِ ثواب ہے کہ یہ کارِ عذاب ہے
حاصل ہوا ہے مجھکو محبت میں جو سرور
پایا وہ بادہ ناب میں کس نے جناب ہے
جب موئے زلفِ یار ہوں بکھرے عذار پر
دیکھو تو کھاتا ائینہ بھی پیچ وتاب ہے
سرخاب کے ہیں جیسے مجھے پر لگے ہوئے
ایسی ہی عاشقوں میں مری آب وتاب ہے
ہیں تیرے رنگا رنگ خیال اِس میں موجزن
اقبال کا دل ہے کہ یہ دریائےِ اب ہے
۱۵
زما سترګو کښې یو سوال دے وې ئې لولہ
څۂ ناشنا غوندې دا خیال دے وې ئې لولہ
چې پہ زړۂ کښې دے پہ ژبہ مې راځی نہ
تحریر کړے مې خپل حال دے وې ئې لولہ
کۂ پہ زړۂ مې ستا د غم وریځې نۂ وے
مات بیا ولې پشکال دے وې ئې لولہ
عاشقی دہ را پغاړہ میراثہ کښې
پوخ مې ھر یو استدلال دے وې ئې لولہ
د بشرے نہ حال د زړۂ را سرګندیږی
چې خفہ دے کۂ خوشحال دے وې ئې لولہ
تۂ زما د ژوند زما نہ پُښتې څۂ لہ
ستا پہ نوم مې انتقال دے وې ئې لولہ
انتظار د عمر ګران دے عشق کښې سر نہ
قائم کړے مونږ مثال دے وې ئې لولہ
د اقبال پہ وولو ستا د مینې بار دے
راټېټ شوے لکہ دال دے وې ئې لولہ
مری آنکھ میں جو ہے سوال پڑھ لے
یہ انوکھا سا، عجیب سا خیال پڑھ لے
جو ہے بات دل میں لب پہ آتی نہیں
میری تحریر میں میرا حال پڑھ لے
تیرے غم کے جو بادل نہ ہوتے دل میں
کیسے پھوٹتا پھر یہ برشگال پڑھ لے
میراث میں ملی ہے یہ عاشقی مجھے
میرا پختہ ہے استدلال پڑھ لے
ظاہر ہوتا ہےچہرے سے حال دل کا
چاہے ہو کوئی خفا کہ خوشحال پڑھ لے
زندگی کا نہ پوچھ ، زندگی میں نے
تیرے نام کی ہے انتقال پڑھ لے
انتظار عمر کا ہے کٹھن عشق میں
قائم ہم نے کی ہے یہ مثال پڑھ لے
عشق کا دلِ اقبال پر بوجھ ہے
یہ الف ہوگیا ہے اب دال پڑھ لے
۱۶
پس لہ مرګہ کۂ مې راغلې د راتلو نہ دې څۂ خېر دے
لکہ شمع پہ مزار مې ژړېدو نہ دې څۂ خېر دے
ساقی زۂ لۂ تندې مرمہ ګوټ زما د پارہ نیشتے
ډک خمان دې رانسکور شہ د پیالو نہ دې څۂ خېر دے
چې مې برخہ ویرانہ دہ دشت کښې خاوری پہ سر نولم
لُوټ چمن دې پہ خزان شہ پسرلو نہ دې څۂ خېر دے
ماښامے وۂ مسخوتن شۂ ماسخوتن نہ مُلا بانګ شو
یار خو رانغے زړګیہ شوګیرو نہ دې څۂ خېر دے
ګیلہ ھاغہ چانہ اوکړہ چې پوھېږی پرې اقبالہ
یار بې رحمہ بې وفا دے د ګیلو نہ دې څۂ خېر دے
بعدِ وفات اے جانِ جاں میرے پاس انے سے حاصل کیا؟
مانندِ شمع میری تربت پر اب اشک بہانے سے حاصل کیا؟
ساقی میں پیاس سے مرتا ہوں جب میرے لئے اک گونٹ نہیں
خم تیرے سارے اُلٹ جائیں اک پیالہ پلانے سے حاصل کیا؟
اک دشت ہے میری قسمت میں اور پھرتا ہوں میں خاک بسر
جب باغ خزاں سے لُٹ جائے تو بھار کے آنے سے حاصل کیا؟
ہوئی شام ، پھر ایا وقتِ عشاء ، پھر عشاء سے اذانِ صبح تک
آیا نہ وہ یارِ وعدہ شکن مری نیند اڑانے سے حاصل کیا؟
کر شکوے گلے اقبال اس سے جو شکوؤں گلوں کو مانتا ہو
جو مانے ہی نہ اُس ظالم سے شکوے منوانے سے حاصل کیا؟
۱۷
اے د ښکلو ښکلیہ د ښکلا نہ دې درځار شم
ستا د مخ پہ شمع پروانې غوندې نثار شم
ھسې رنګې ما کړہ فرېفتہ د مخ پہ ګل دې
چې باغ کښې سوختہ دل بلبل پہ شان لہ پہ چغار شم
خوښ یم تر لمن پورې مجنون څیرې ګریوان زۂ
نۂ غواړمہ دا چې افلاطون غوندې ھوښیار شم
ښکلیہ ستا د ھجر د وصال معنیٰ یوہ دہ
خضر شم واصل کۂ د منصور غوندې پہ دار شم
رنګ مې شاہ مدام د زړۂ پہ وینو سرۂ لبان وی
تڼاکې پہ سینہ دننہ پټ لکہ انار شم
کلہ نہ چې کړے مې دے ګوټ د عشق دمئیو
نۂ کېږی اثر راباندې ډېر ھم کہ مېخوار شم
زاھدہ نۂ غولېږمہ پہ حورو پہ غلمانو
پرېږدمہ اصل او د نقل طلبګار شم
اقبالہ ګمراہ شوے د غماز د لاسہ ډېر یم
دا بہ مې نصیب وی چرې اوس ھم کہ پہ لار شم
پیار میں ترے شۂِ خوباں نثار ہو جاؤں میں
تیرے چہرے پہ فدا پروانہ وار ہو جاؤں میں
کر دے اپنے عارضِ گل پہ فدائی یوں مجھے
عندلیبِ سوختہ جاں کی پکار ہو جاؤں میں
چاہتا ہوں مثلِ مجنوں چاک داماں میں رہوں
یہ نہیں مثلِ فلاطوں ہوشیار ہو جاؤں میں
تیرے وصل و ھجر کے جاناں معنی ایک ہیں
خضر سے مل جاؤں یامنصورِ دار ہوجاؤں میں
رنگ ہو خونیں جگر سے سرخ ہونٹوں سا مرا
رکھ کے چھالے اندروں مثلِ انار ہو جاؤں میں
جرعہِ آبِ جنون جب سے کیا ہے میں نے نوش
بے نشہ ہوں لاکھ بھی گر بادہ خوار ہوجاؤں میں
زاھدہ! کھاتا نہیں میں حورو غلماں سے فریب
اصل چھوڑوں نقل کامیں خوستگار ہو جاؤں میں
دستِ غمازاں سے بہکا ہوں بہت اقبال میں
کاش راہِ حق کا اب راہی شمار ہو جاؤں میں
۱۸
نۂ غواړی خلق چې پخلا شُو دواړہ
راځہ پخپلہ چې رضا شُو دواړہ
زمونږہ مینہ مثالی مینہ وہ
د سازشونو ښکار دچا شُو دواړہ
تۂ بہ انا زۂ بہ پښتو پرېږدم
ھغہ زاړۂ یاران بہ بیا شُو دواړہ
نۂ زۂ بہ تا نۂ تہ بہ ما ګرموې
دا بہ تسلیم کړو چې خطا شُو دواړہ
مونږ د ھر ملنګ مدار کړے دے
نخښہ د چا د بد دعا شُو دواړہ
عشق ابتدا عشق انتھا دہ نو بیا
مونږہ پہ کوم ګناہ سزا شُو دواړہ
اقبالہ دا بہ معجزہ اوګڼم
کۂ ملاقی پہ دې دنیا شُو دواړہ
خلافِ خلق ہے راضی ہوں ہم دونوں
چلو کہ ہوتے ہیں خود ہمکنار ہم دونوں
ہمارا پیار مثالی نہیں وہ پہلے سا
کہ سازشوں کا ہوے ہیں شکار ہم دونوں
میں چھوڑوں پختو کو تو بھی انا کو چھوڑ اپنی
چلو کہ پہلے سے ہو جائیں یار ہم دونوں
نہ تُو کرے مجھے بدنام اور نہ میں تجھکو
خطائےِ خوِش پہ ہوں شرمسار ہم دونوں
ہر اِک ملنگ کا رکھا ہے پم نے دِل تو پھر
ہیں بد دعاوں سے کس کی دوچار ہم دونوں
ہے ابتدا بھی جنوں اور انتہا بھی جنوں
تو کس گنہ کے ہیں پھر گنہگار ہم دونوں
میں ایک معجزہ سمجھوں گا اِس کو اے اقبال
گر اِس جہاں ہی میں ہوں ہمکنار ہم دونوں
۱۹
پہ ھر مخ کښې نندارہ د ھغہ یار دہ
خو لیدو لہ ئې د زړۂ سترګہ پکار دہ
کہ سرمد ئې د چړې د لاندې و،ېنی
منصور کړې تماشہ پہ سر د دار دہ
مجنون اولیدۂ پہ سترګو د لېلیٰ کښې
څیرې کړې د رانجھا پوسکۍ تار دہ
فرھاد غر سُورے کوی نۂ ستړے کېږی
شرینۍ ورتہ محل کښې انتظار دہ
بلبل باغ کښې پہ ھر ګل باندې غوړېږی
وپتنګ وتہ ښائستہ لمبہ د نار دہ
که زاهد ئ د تسبو دانه کښې ګوري
د هندو په غاړه بياسته د زينار ده
څوک ئې ګوری پہ جمال څوک پہ جلال کښې
جوړہ کړې ھر چا ځان د پارہ لار دہ
اقبال ھیڅ پہ حقیقت او مجاز نۂ دے
ښکارہ شوې عاشقی ورتہ د کار دہ
ہر چہرہ عکسِ روئے جمالِ نگار ہے
ہوتی نگاہِ دل سے مگر دیدِ یار ہے
سرمد نے دیکھ پایا ہے اس کو چھری تلے
منصورمحوِ دید سرِ اوجِ دار ہے
مجنوں نے اس کو دیکھا ہے لیلیٰ کی انکھ میں
رانجھا بھی اس کے عشق میں سینہ فگار ہے
فرہاد محوِ کوہ کنی بے تکان ہے
شیریں محل میں رنجِ کشِ انتظار ہے
ہر عندلیب باغ میں گل پر نثار ہے
پروانے کی بہشت مگر شعلہ زار ہے
زاہد کو دیکھ دانہِ تسبیح میں ہے اسیر
ہندو کو دیکھ اس کے گلے میں زینار ہے
کوئی دیکھتا ہے اس کو جلال وجمال میں
ہر ادمی کا اپنا ہی اپنا شعار ہے
اقبال عشقِ حق ہو کہ عشقِ مجاز ہو
درکار عاشقوں کو یہی کاروبار ہے
۲۰
لہ مجازہ حقیقت تہ اورسېدمہ
ابتدا د محبت تہ اورسېدمہ
ستا د حسن تماشو کښې داسې ورک شوم
چې ژوندے یمہ جنت تہ اورسېدمہ
چې اھونو کښې یو کېف دے یو سرور دے
دا پہ عشق کښې کوم حالت تہ اورسېدمہ
پہ نصیب کښې بہ مې کلہ دا اعزاز وی
کہ دې چرې ھم تھمت تہ اورسېدمہ
پہ غلطہ لارہ اچوی غماز مې
پہ خوارو د یار محلت تہ اورسېدمہ
د جھان علم بہ وایم چې حاصل شو
کہ معنیٰ د انسانیت تہ اورسېدمہ
دا بہ لویہ کامیابی وی اے اقبالہ
جو دانہ کہ ئې صفت تہ اورسېدمہ
مجاز ہی سے حقیقت کا رازداں ہوا میں
یوں ابتدائےِ محبت کا رازداں ہوا میں
ہوا گم ایسے ترے حسن کے نظاروں میں
کہ گویا جیتے ہی جنت کا رازداں ہوا میں
سرور وکیف سے معمور ہیں مری آھیں
جنوں میں ایسی بھی حالت کا رازداں ہوا میں
یہ ارزو تھی کہ تہمت کا پاؤں میں اعزاز
خوشا نصیب کہ تہمت کا رازداں ہوا میں
عدو نے راہ دکھائی تو تھی غلط لیکن
مشکل سے یار کی محلت کا رازداں ہوا میں
اگر میں سیکھ انسانیت تو سمجھوں گا
جہانِ علم کی دولت کا رازداں ہوا میں
مثالِ دانہِ یک جو اگر ممدوح ہوا
اقبال خوبیِ قسمت کا رازداں ہوا میں
۲۱
ستا د حسن نندارہ دہ ګلستان کښې
ھیڅ ھم نشتے نور چې ګورم پہ جہان کښې
ستا د مینې برکت دے نور څۂ نۂ دي
چې دا ستا نخښې لیدے شی راتہ ځان کښې
ائینہ چې راتہ مخکښې مخکښې نیسې
څۂ بہ ځائې شی حېرانی نورہ حېران کښې
ستا تصویر خپل پہ زړۂ کښې لیدل غواړم
سر مې ټیټ ځکہ نیولے دے ګریوان کښې
چې مې مرګ دا ستا دیدن لہ پارہ شرط دے
ھیڅ کشش نیشتہ دے مالہ پہ حیوان کښې
ما پہ دیر او حرم کښې لټولې
تۂ دېرہ مې وې د زړۂ پہ بیابان کښې
بھرور ئې چې لہ مینې نہ څوک نۂ شی
یقین اوکړہ چې اقبالہ دے تاوان کښې
نظارا حسنِ جاناں کا بہر سُو ہے گلستاں میں
سوائے حسن جاناں کچھ نہیں ہے بزمِ امکاں میں
نہیں کچھ بھی یہ تیرے حسن کی ساری کرامت ہے
کہ تیرے نقش آتے نظر مجھ کو مری جاں میں
یہ میرے آگے آگے کیوں تُو ائینہ پکڑتا ہے
مزید حیرت سما سکتی نہیں ائینِ حیراں میں
تری تصویر دل میں دیکھنا چاہتا ہوں میں جاناں
جھکایا اس لئے ہے میں نے سر اپنا گریباں میں
طلب مجھکو ترے بس آخری دیدار ہی کی ہے
کشش میرے لئے کوئی نہیں ہے آبِ حیواں میں
تجھے تو دھونڈتا میں پھر رہا ہوں دیروکعبہ میں
ٹھکانہ تھا مگر تیرا مرے دل کے بیاباں میں
محبت سے نہ بہرہ مند ہو اقبال جب کوئی
یقین کر لیجئیے رہتا ہے وہ انسان نقصاں میں
۲۲
اے پردہ نشینہ وایہ دا کومہ ادا دہ
اوسې مې پہ زړۂ کښې خو لہ سترګو مې حیا دہ
شمعې پروانې سرہ دا ظلم دے کہ عدل
پټہ پہ فانوس شوې خورہ کړې دې رڼا دہ
چې نیشت وومہ مئین دې پہ خپل ځان باندې ھالۂ کړم
چې ھست شوم ښکارہ نۂ راځې وفا دہ کہ جفا دہ
کلہ بہ مې څنګہ بہ مې ستا وصال نصیب شی
شپہ دہ او کہ ورځ پہ زړۂ زما دغہ سودا دہ
څوک د خپل مئین د بدو خیال کولے نۂ شی
ستا چې څۂ رضا دہ ھم ھغہ زما رضا دہ
زۂ پہ ھر یو ښکلی مخ کښې نخښې دیار وینم
ځکہ پہ چمن کښې پہ ھر ګل مینہ زما دہ
ستا پہ ترخ کښې مری اقبال لۂ تندې ساقی جانہ
وېش دے ھر طرف تہ د رندانو غلبلا دہ
اے پردہ نشین کونسی یہ تیری ادا ہے
رہتے ہو مرے دل میں مگر مجھ سے حیا ہے
اے شمع یہ پروانے سے ہےظلم کہ انصاف
تو دیتی جو فانوس میں چھپ چھپ کے ضیا ہے
جب نیست تھا میں اس سے ہم اغوش تھا لیکن
جب ہست ہوا وہ دور ہوا مجھ سے یہ کیا ہے
کب کیسے؟ نصیب ہو گی مجھے تیری ملاقات
اب شام سحر مجھ کو یہ ارمان لگا ہے
اے قاصدا کر مجھ سے مرے یار کی باتیں
دوزخ کا مجھے ڈر ہے نہ جنت کی ہوا ہے
ہر روئے حسیں میں نظر آتا ہے رخِ یار
گلشن کے ہر اک گل میں میں مرا پیار بھرا ہے
تشنہ ہوں میں اقبال ترے پہلو میں ساقی
رندوں میں جھپٹ چھین کا شور مچا ہے
۲۳
ټولہ ټولہ شپہ مې ستا یادونو کښې ژړلی دی
ور کښې مې ژړلی پہ ګوټونو کښې ژړلی دی
خوړ زما ګواہ دے مېرې ھم مې ګواھی کوی
پہ غرونو مې ژړلی پہ سمونو مې ژړلی دی
پټې مې ساتلې ناوې اوښکې غیر محرمو نہ
بړستن کښې مې ژړلی څادرونو کښې ژړلی دی
نیمہ نیمہ شپہ بہ خپلې مور راوېښ د خوبہ کړم
ما اکثر لہ غمہ پہ خوبونو کښې ژړلی دی
زړۂ بہ مې ډک شو د چمن پہ پہ لور بہ لاړمہ
ماسرہ بلبلو پہ باغونو کښې ژړلی دی
زۂ ډېرې ژړا باندې اقبال یوہ نغمہ شومہ
ما سرہ مطرب خپلو سازونو کښې ژړلی
میں ساری رات تیرے ہجر کی راتوں میں رویا ہوں
میں چھپ کے گھر کے گوشوں اور دروازوں میں رویا ہوں
مرے اِس رونے پہ ہیں ندیاں اور وادیاں شاہد
میں کوہساروں میں رویا ہوں میں صحرا وں میں رویا ہوں
دلہن کی طرح میں نے اشک غیروں سے چھپائے تھے
رضائیوں چادروں میں چھپکے تنہائیوں میں رویا ہوں
جگایا کرتی تھی ماں میری وقتِ نیم شب مجھ کو
بفرطِ رنجش و الام میں خوابوں میں رویا ہوں
گلے مل مل کے مجھ سے روئے بلبل گلستاں کے
پریشاں حال جب بھی میں چمن والوں میں رویا ہوں
مغنی اور سازندے بھی میرے حال پر روئے
میں نغمہ بن کے جب اقبال سازندوں میں رویا ہوں
۲۴
څۂ بې حدہ تنھائی دہ
جوړې ورانہ خدائی دہ
کۂ چمن دے د ګلونو
خو ھوا ئې صحرائی دہ
دغہ نمر او دې سپوږمۍ ھم
کمہ کړې ضیائی دہ
ما سرہ شوې عالمہ
څۃٔ نا اشنابې وفائی دہ
ھغہ زخم مې پہ زړۂ دے
چې محال مسیحائی دہ
د زرۂ زړۂ کښې تیراومہ
کۂ څۂ وائیم رسوائی دہ
د اشنا لہ ظلم ژورہ
اے اقبالہ دوھائی دہ
کیا بی حد تنہائی ہے
اک ویران خدائی ہے
پھول کھلے ہیں گلشن میں
چلتی ہوا صحرائی ہے
سورج نے بھی چاند نے بھی
لو کچھ اپنی گھٹائی ہے
سن اے جہاں ہوئی میرے ساتھ
نادیدہ بے وفائی ہے
زخم ہے دل میں وہ جس کا
دارو نہ دوائی ہے
رکھتا ہوں دل کی دل میں بات
گر میں کہوں رسوائی ہے
یار کے ظلم کی ہر جانب
اقبال مچی دھائی ہے
۲۵
مۂ وایہ چې ښکلو سرہ مینہ مې ګناہ دے
سل ځلہ قبول دغہ ګناہ پہ ھرې سزا دے
پېدا دی نظارې لہ د چمن ښائستہ ګلونہ
دا ښائستہ ګلونہ خو ښائست ددې دنیا دے
ما جوړ کړے ځان لہ مئین زړۂ پخپلہ نۂ دے
نۂ زما پہ زور دے څۂ او نۂ مې پہ رضا دے
سرۂ شراب ساقی ځوانی چې درې نشې یو ځاے شی
کاڼے دے زړۂ نۂ دے چې پہ وس کښې ھم لا بیا دے
ډکې پیالې راؤړہ د شرابو ساقی نوش کړم
ټانګ دے نن زما نۂ محتسب دے نۂ مُلا دے
اوس زما پہ غاړہ باندې اچوی قبول دے
کړے اشارت د نقاب لاندې راتہ چا دے
وبہ بخښې ماتہ دا د عشق ګناہ اقبالہ
دا سبق یاد کړے د ازل لہ استادہ ما دے
کبھی یہ نہ کہیئے محبت گنہ ہے
قبول اس خطا کی ہمیں سو سزا ہے
چمن میں ہیں پھولوں کے کیا کیا نظارے
ان ہی کے تو دم سے چمن خوشنما ہے
بنایا نہیں میں نے خود قلبِ شیدا
ہے اِس میں مرا بس نہ میری رضا ہے
ہوں یکجا یہ ساقی ، شراب و جوانی
رہے دل جو قابو میں وہ دل سنگ سا ہے
نہ ہے آج ناصح نہ ہی محتسب ہے
پلا ساقیا آج میداں کھلا ہے
سزا دے مجھے پر یہ دیکھو بھی کس نے
اشارہ کیا مجھ کو زیرِ ردا ہے
گنہ عشق کا بخش دیگا وہ اقبال
یہ استاد روزِ ازل سے سنا ہے
۲۶
خیال کښې مې راشہ غم زما نہ ھېر کړہ
د بېلتانۂ تورتم زما نہ ھېر کړہ
دا چې دا زۂ پکښې ژوندون تېراوم
د ظالمانو چم زما نہ ھیر کا
پہ خندا جوړ کړہ رخسارونہ ګلاب
دا د خزان موسم زما نہ ھېر کړہ
بې حوصلې شومہ ھمت راکړہ
د زمانې ستم زما نہ ھېر کړہ
ما اقبالہ وبالہ سردارہ نبیﷺ
کہ دے کشمیر عجم زما نہ ھېر کړہ
آ خیال میں سب رنج والم مجھ سے بھلا دے
اتشکدۂِ ہجر کے غم مجھ سے بھلا دے
یہ میں ہوں کہ کرتا ہوں ان میں زندگی بسر
اِن جور پرستوں کی یہ چھم مجھ سے بھلا دے
چہرے کو گلِ سرخ بنا دے ذرا ہنس کر
یہ عہدِ خزاں میرے صنم مجھ سے بھلا دے
کم حوصلہ ہوں دے تُو مجھے جرأت وہمت
بیدرد زمانے کے ستم مجھ سے بھلا دے
اے سرورِ کونینﷺ اے اقبال کے اقا
کشمیر کا یہ ملکِ عجم مجھ سے بھلا دے
۲۷
ھیڅ نۂ پوھېږم اشنا څۂ چل اوکړم
زۂ پہ خپل ځان او پہ تا څۂ چل اوکړم
رانہ خوشحلہ پہ یو حال کښې نۂ دہ
زۂ پہ مزاج د دنیا څۂ چل اوکړم
زۂ دې دنیا پہ آخر دواړو غواړم
چې مې قبول شی دعا څۂ چل اوکړم
د محبت پہ بې قانونہ ملک کښې
یم سزاوار بې ګناہ څۂ چل اوکړم
ځوانی خانی مې درنہ دواړہ ځار کرۂ
نۂ ښکاری تاتہ وفا څۂ چل اوکړم
چې راوستے نۂ شې جانان ځان سرہ
سپرلیہ ستا پہ ښکلا څۂ چل اوکړم
اقبالہ تللی بېرتہ بیا نۂ راځی
نۂ پورہ کېږی خلا څۂ چل اوکړم
کچھ سمجھ آتی نہیں ہے اشنا میں کیا کروں
ساتھ اپنے اور تیرے دلربا میں کیا کروں
خوش نہیں رہتا تُو مجھ سے کیوں کسی بھی حال میں
ساتھ پھر تیرے جہانِ بے وفا میں کیا کروں
مانگتا دنیا و آخر تجھ کو میں دونوں میں ہوں
ہو جائے مقبول میری یہ دعا میں کیا کروں
ملک لا قانونِ الفت میں بسیرا ہے مرا
بیگناہی کی نہ کیوں پاؤں سزا میں کیا کروں
تجھ پہ کر بیٹھا میں خانی ، جوانی کو نثار
پھر بھی گر سمجھے نہ تُو میری وفا میں کیا کروں
میرے جاناں کو اگر تُو ساتھ لا سکتی نہیں
ذکر پھر تیرا بہارِ جاں فزا میں کیا کروں
جو گئے پھر لوٹ کر اتے نہیں اقبال وہ
ہو نہیں سکتا کبھی پُر یہ خلا میں کیا کروں
۲۸
یخ دې شو زړګے کۂ زمانې څۂ کسر پاتې دے
ھر ستم پہ ما اوکړہ چې ستا پہ نظر پاتې دے
دومرہ پہ اسانہ دا د مینې پیریان کلہ ځی
لا پہ نیمبولا مُلا بھادرہ اثر پاتي دے
اولہ مې کاڼو باندې خس ھم صرفہ اونۂ کړې
څۂ اوشُو کہ مات دے پہ اوږو باندې سر پاتې دے
ھر ورځې باټ کړی پہ رانجو باندې کاږۂ باڼۂ
زرۂ سورے سورے شو وائی وار د ځیګر پاتې دے
زېرے دې رانۂ وړۂ ھمېشہ د غم خبر راؤړې
راؤړہ و رېبارہ اوس چې کوم یو خبر پاتې دے
زلفې ئې خورې کړې پہ سپین مخ ما وئیل دا ولې
وې خندل کعبہ باندې د حبشو لښکر پاتې دے
زېلہ مې اوباسی نۂ پوھېږمہ اقبالہ زۂ
ولې دې دنیا تہ چې زما نہ خطر پاتې دے
دل ہوا تھنڈا کہ کچھ اور کسر باقی ہے
کر ستم وہ بھی کوئی تجھ سے اگر باقی ہے
اتنی آسانی سے کب جاتا ہے آسیبِ جنوں
دیکھ وہی اب بھی نیمبولا پہ اثر باقی ہے
سنگ باری میں کسر اُٹھا نہ کوئی یار تُو
سنگ سے ٹُوٹا ہوا دوش پہ سر باقی ہے
سرمگیں پلکوں سے دِل کرکے وہ چھلنی میرا
اب یہ کہتا ہے ذرا ٹھر جگر باقی ہے
تُو خوشی کی نہیں بس لاتا ہے غم کی خبر
لا سنا قاصدہ گر کوئی خبر باقی ہے
زلف چہرے پہ گرا کر وہ جواباً بولا
زنگیوں کا ابھی کعبے پہ گزر باقی ہے
کیوں جہاں بیخ کنی کرتا ہے میری اقبال
کیا جہاں والوں کو کچھ مجھ سے خطر باقی ہے
۲۹
دا چې تا کړمہ دلبرہ ھم آغوش
اوس مې خداے د پارہ نۂ کړې فراموش
طغیانی بہ دې کړې ھېرہ اباسینہ
کۂ مې اووینې د اوښکو د سیند جوش
چې نوش کړې مې شراب د محبت دی
لہ ھغې ورځې راغلے نۂ دے بیا ھوش
څۂ لټکې څۂ منګور خوارۂ زلفان دی
ډک د زھرو دې ھمېش ځانګی پہ دوش
سرۂ لالہ دې قطار کړی دی اوربل کښې
کہ عسکر دی پہ ځنګل کښې سرخ پوش
ستا د کور شپہ پہ اقبال باندې شوګیر وی
ستا د پښو ښکالو تہ وی ھمہ تن ګوش
جب کر لیا ہے مجھے اے یار ہم آغوش
اب کرنا خدارا نہ کبھی مجھکو فراموش
طغیاینوں کو اپنی بھلا دے گا اباسین
دیکھے وہ مرے اشک کے دریا اگر جوش
جس روز سے پیمانہ محبت کا پیا ہے
اُس دن سے ابھی تک نہیں ایا ہے مجھے ہوش
یہ سانپ بچھو کی طرح بکھری تری زلفیں
لہرا رہی ہیں زہر سے معمور سرِ دوش
زلفوں میں گلِ لالہ کی یہ سرخ قطاریں
لگتا کوئی جنگل میں ہے لشکر یہ سرخ پوش
اقبال تیرے گھر میں بھی سوتا نہیں شب کو
رہتا ہے قدم بوسی میں تیری ہمہ تن گوش
۳۰
خپل د مینې لہ انجامہ خبر نۂ یم
لکہ ړوند لہ بلہ ګامہ خبر نۂ یم
مسافر یمہ د مینې پہ وطن کښې
د منزل او لہ مقامہ خبر نۂ یم
ھر یو در ھریو بام تہ حېران ګورم
ستا لہ در او ستا لہ بامہ خبر نۂ یم
ما پہ مینہ کښی سُبکی کنځا لیدل دی
د انعام او لہ اکرامہ خبر نۂ یم
لکہ شپہ چې د ھُوسۍ پہ مېږہ تون وی
یو ساعت ھم لہ ارامہ خبر نۂ یم
ما اقبال باندې د غم تورہ تیارۂ دہ
د سحر او لہ ماښامہ خبر نۂ یم
مجھکو نہیڼ ہے عشق کے انجام کی خبر
اندھے کو جوڼ نہیڼ قدم وګام کی خبر
اپنے دیار میڼ بھی غریب الدیار ہوڼ
کب ہے جنوڼ کی راہ کی اتمام کی خبر
حیرت سے دیکھتا ہوڼ ہر ایک بام و در کو میڼ
مجھ کو نہیڼ ہے تیرے در و بام کی خبر
اکرام کی خبر ہے نہ انعام کی خبر
مجھ کو صرف عشق میڼ دشنام کی خبر
چیونټی کے بل پہ آہو بسر جیسے شب کرے
یو لمحہ بھر نہیڼ مجھے ارام کی خبر
محصورِ تیرګی ہوں میں اقبال ہر گھڑی
مجھ کو نہیں کوئی سحر وشام کی خبر
۳۱
زړۂ زما پہ ھسې رنګ کړو ستا نظر شق
لکہ تندر چې سینہ کړی د حجر شق
پہ ژړا رانہ خواږۂ یاران بېزار شول
پہ باران کښې خطر زیات شی د کمر شق
کہ ھزار مرھم پټۍ پرې طبیب کېږدی
نۂ رغېږی بې وصالہ مې ځیګر شق
پہ ھر لوری مسلمان د ظلم ښکار دے
دغہ تورہ شپہ بہ کلہ کړی سحر شق
د فرھاد مټو کښې زور د عاشقۍ وۂ
پہ تنھا صورت ئې ځکہ کړو لوے غر شق
چې تندی کښې دچا یار نۂ وی اقبالہ
پہ وھلو بې ګناہ بہ کړی خپل سر شق
یوں کر گیا ہے دِل کو تیرا تیرِ نظر شق
جس طور سے کرتی ہے کوئی برق حجر شق
گریہ سے مرے ہوگئے بیزار مرے یار
بڑھ جاتا ہے خطرہ جو ہو بارش سے کمر شق
بے وصل صنم، لاکھ بھی درماں کرے کوئی
اچھا کبھی ہونے کا نہیں میرا جگر شق
ہر سمت مسلمان تہِ مشقِ ستم ہے
کب جانے کرے اس شبِ ظلمت کو سحر شق
فرہاد میں تھا زورِ جنوں اِس لئے تنہا
اک کوہ کا اس نے کیا تیشے سے جگر شق
تقدیر میں لکھا نہ ہو جن کے وصالِ یار
کر ڈالے نہ اقبال وہ کیوں پیٹ کے سر شق
۳۲
فلکہ ولې مې لۂ خپلہ یارہ بیل ګرځوې
لکہ پرکار پہ شان لہ سر راباندې تل ګرځوې
زړۂ مې دے لږېدلے د کال دولس میاشتې
ترس دې نۂ شی د غمونو پرې غوبل ګرځوې
د دښمنۍ پہ نوعیت دې نۂ پوھېږمہ زۂ
چې ناممکن وی کوم ھغہ زما منزل ګرځوې
طمع بہ څو د بچ کېدو پہ زړۂ کښې ولرمہ
راښکلی غشی راپسې چې د اجل ګرځوې
پہ طوفانو کښې راګېرہ دہ کشتۍ مې د ژوند
نۂ ډوبوې او نۂ پہ لوری د ساحل ګرځوې
دا زۂ اقبال دې د ستم نخښہ یواځې یمہ
کہ پہ دې حال کښې څوک زما غوندې ھم بل ګرځوې
جدا تُو یار سے کیوں اسماں پھراتا ہے
مجھے جو صورتِ پرکار تُو گھماتا ہے
مرا تو خرمنِ دِل بارہ ماہ چلتا ہے
حزر غموں کے تُو اِس پہ گاہ چلاتا ہے
خبر نہیں مجھے تُو کیوں عدو بنا مرا
فصیلیں تُو مری راہوں میں کیوں اتھاتا ہے
امید لاؤں میں کیا دل میں اپنے بچنے کی
کمان تانے ہوئے تُو جو پیچھے اتا ہے
مری حیات کی کشتی گھری ہے طوفاں میں
نہ ہی ڈبوتا ، نہ ہی پار تُو لگاتا ہے
ترے ستم کا ہے اقبال ہی نشانہ کیا
یا کسی اور کو بھی اسطرح ستاتا ہے
۳۳
یو داسې ملک تہ لاړې چې ھیچا نہ پېژندلے
زۂ تانہ ځارېدلے ، تۂ زما نہ ځارېدلے
پښتو وے نہ مذھب وے نہ رسمونہ رواجونہ
د ھر سړی خپل ژوند وې چا غرض پرې نۂ ساتلے
د سیند د پاسہ جوړ وے د یاقوتو د مرمرو
یو ښکلے شیش محل وے پکښې مونږہ اوسېدلے
یو باغ وے د ګلونو پکښې ټال وې د رېښمو
نرے نرے شمال وے مونږ وار پہ وار ځانګلے
نرے نرے باران وے د چینې اواز راتللے
غرق خوب باندې اودۂ وے مونږہ چا نۂ ویښولے
یو ښکلې شنۂ مینا وے پکښې سرۂ زاړۂ شراب وے
جامونہ جنګېدلے یو بل پہ نامہ څښلے
رنګینې رڼاګنې وےستا سر مې پہ سینہ وے
د ګوتو پہ ګومز مې ستا ویښتۂ ګومزولے
اقبالہ لېونے ئې پہ خیالی دنیا کښې اوسې
جامہ د حقیقت ارمان خوبونو اوموندلے
وہاں جاتے جہاں کوئی نہ اپنا اشنا ہوتا
فدا میں تجھ پہ ہوتا اور تُو مجھ پہ فدا ہوتا
جہاں ہوتی نہ پابندی رواج ورسم ومذھب کی
جہاں ہر شخص زندہ بے غرض مستِ انا ہوتا
اباسیں پہ محل یاقوت ومرمر کا بنا ہوتا
ٹھکانہ جس میں تیرا اور میرا دلربا ہوتا
کہیں گلشن میں ہوتا ریشمی جھولا صبا چلتی
ہم اِس پر باری باری جھولتے کیا ہی مزا ہوتا
جگاتا کوئی نہ ہم کو وہاں پر خوابِ شیریں سے
وہاں رم جھم برستی او چشمہ نغمہ زا ہوتا
بوقتِ میکشی پیمانوں سے پیمانے ٹکراتے
مئی سرخِ کہن سے نیلگوں مینا بھرا ہوتا
بناتا شانۂِ انگشت سے میں تیرے بالوں کو
تیرا سر نورِ رنگیں میں سرِسینہ دھرا ہوتا
خیال وخواب میں رہتا ہے تُو اقبال دیوانے
تُو کاش اِن خواب خیالوں سے حقیقت اشنا ہوتا
۳۴
ځان دې اولیکم کہ زړۂ دې اولیکم
تۃ پخپلہ وایہ څۂ دې اولیکم
قد تہ صنوبر کہ سروہ اووائم
مست لکہ د زرکې تلۂ دې اولیکم
شونډې دې راټولې د ګلاب غوټۍ
څاڅی ترې امرت کۂ خواږۂ اولیکم
څنګہ بہ خبر لۂ زړۂ ځانہ شم
مړاوې شرابی کاتۂ دې اولیکم
چا سورے سورے کړمہ پہ زړۂ باندې
وروځې کہ کاږۂ باڼۂ دې اولیکم
ولې برے یو نۂ سمہ اقبالہ زۂ
ډېر بہ دې لیکی چې زۂ دې الیکم
تجھ کو اپنا دِل کہ اپنی جاں لکھوں
بول کیا میں تجھ کو اے جاناں لکھوں
قد کو صنوبر لکھوں کہ سرو میں
چال میں تجھ کو کبک رواں لکھوں
شربتِ امرت لکھوں لبوں کو یا
غنچۂِ گلاب ارغواں لکھوں
جان و دِل کی کیاخبر ہوگی مجھے؟
گر میں کیفِ بادۂِ چشماں لکھوں
کردیا ہے کس نے دِل چھلنی مرا
لکھوں ابرو یا خمِ چشماں لکھوں
اور بھی لکھیں گے میں اقبال کیوں
سب سے پہلے مدحتِ جاناں لکھوں
۳۵
اغیار تر منځہ کہ راښکل دہ لیکہ
مونږہ لہ زړۂ کلہ منل دہ لیکہ
اوبۂ ډانګونو باندې نۂ بېلېږی
چا کہ پہ خیال کښې ھم ټاکل دہ لیکہ
نن کہ پہ مینځ صبا پہ ډډہ بہ شی
ستا پہ رضا ستا د اوربل دہ لیکہ
ھغہ نقطې تہ رسېدۂ بہ غواړی
د مشاطې نہ چې شلېدل دہ لیکہ
ځکہ حالاتو کښې بدلون رانغے
مونږہ ټول عمر ټکول دہ لیکہ
خیال د اقبال پابند د لیکو نۂ دے
خیال کښې بیا ولې راغل دہ لیکہ
اغیار نے جو درمیاں کینچھی ہے یہ لکیر
تسلیم ہم نے اب بھی نہیں کی ہے یہ لکیر
پانی تو ضربِ چوب سے ہوتا نہیں جدا
پھر کیوں کسی کے خیال میں آتی ہے یہ لکیر
گر آج درمیاں ہے تو کل ہوگی دائیں بائیں
زلفوں میں تیری مرضی سے بنتی ہے یہ لکیر
اُس نقطے پہ اب اس کو پُہچنا ضرور ہے
مشاطہ سے جہاں کہیں ٹوٹی ہے یہ لکیر
حالات اس لئے تو بدلتے نہیں ہیں آج
کہ ہم نےےساری زندگی پیٹی ہے یہ لکیر
زلفیں وہ منہ پہ ڈال کے بولا ، سرِفلک
کاذب صبح کی تم نے کیا دیکھی ہے یہ لکیر
اقبال تو نہیں ہے لکیروں کے قید میں
پھر اس کے کیوں خیال میں ائی ہے یہ لکیر
۳۶
دغہ ھمرہ ډېر داستا عکسونہ دی
حیران د ائینو ورتہ مخونہ دی
نمر دے کہ سپوږمۍ دہ او کہ ستوری دی
د واړو ستا ښائست نہ ښائستونہ دی
زۂ پہ تا مئین یم څۂ کمال نۂ دے
ښکلی د ھر چا د زړۂ سرونہ دی
څۂ خو داسې راز دے چې ښودۂ غواړی
نور نور چې تخلیق کښې جھانونہ دی
دا دنیا دے ځائے د محبت مینې
دا دلتہ بل کړی چا اورونہ دی
مینہ دے خوراک او اغوستن زما
مینہ کښې حاصل راتہ علمونہ دی
لوستې ئې د عشق چې فلسفہ نۂ وی
ګران ورتہ اقبالہ ستا شعرونہ دی
عکس تیرے حسن کے اتنے کثیر عنوان ہیں
ائینے بھی دیکھ کے اِن کو بہت حیران ہیں
اسماں پہ یہ ستارے ، ماہتاب و افتاب
سب کے سب یہ جلوۂِ حسنِ رخِ جانان ہیں
میں کہ ہوں شیدائی تیرا یہ نہیں میرا کمال
حسن والے ہوتے ہی انسان کا دِل جان ہیں
راز ہیں کچھ طالبِ عقدہ کشائی بھی یہاں
روز جو صورت نمائے عالمِ امکان ہیں
یہ جہاں تو در حقیقت ہے محّبت کا جہاں
کس نے بڑھکائے جہاں میں اگ کے طوفان ہیں
یہ محّبت اوڑھنا بھی ہے بچھونا بھی مرا
اس میں تو میرے لئے کئی علم کے عنوان ہیں
جو جہاں میں فلسفۂِ عشق سے واقف نہیں
کب سمجھتے گفتۂِ اقبال وہ نادان ہیں
۳۷
د کلی نہ راغلی د جانان خبرہ اونۂ کړہ
ما ورسرہ ھم پہ بل عنوان خبرہ اونۂ کړہ
ھر یو ګل دستہ او ھار د غاړې جوړول غواړی
چا د تالا شوی ګلستان خبرہ اونۂ کړہ
ھر طبیب راځی راتہ زخمونہ مې پہ ګوتہ کړی
یو ھم لا تراوسہ د درمان خبرہ اونۂ کړہ
پہ نوم ئې د مذھب ، د قام او ژبې تقسیم کړی دی
چرتہ تنګ نظرو د انسان خبرہ اونۂ کړہ
د حق وېنا د پارہ د منصور شان حوصلہ غواړی
ډېرو وخت چې راغے د ایمان خبرہ اونۂ کړہ
زۂ ھم د وختونو پہ اسیا باندې دل شوے یم
دا بیلہ خبرہ ما دځان خبرہ اونۂ کړہ
ھلتہ بہ الزام ھم پہ پښتو اقبال رانۂ ولی
لاړ بہ شی دوزخ تہ کۂ رضوان خبرہ اونۂ کړہ
آے وہ شہرِ جاناں سے جانان کی کوئی بات نہ کی
میں نے بھی اُن سے اور کسی عنوان کی کوئی بات نہ کی
چاہتا ہر انسان بنانا گلدستے اور ہار مگر
کسی نے بھی ویراں ہوتے بستان کی کوئی بات نہ کی
کرتا ہر طبیب نشان دہی ہےمیرے زخموں کی
آج تلک کسی نے آکر درمان کی کوئی بات نہ کی
کر دی تقسیم انسانیت مذھب ، قوم اور زبان میں
ان تنگ نظر انسانوں نے انسان کی کوئی بات نہ کی
حق کہنے کو دنیا میں منصور کی ہمت چاہئیے ہے
بہتوں نے جب وقت پڑا ایمان کی کوئی بات نہ کی
وقت کی چکیوں نے مجھے بھی پیس کر رکھا ہے مگر
یہ ہے بات الگ کہ میں نے اپنی جان کی بات نہ کی
پشتو کی واں لاج رکھوں گا چلا جاؤں گا دوزخ میں
جب اقبال رضوان نے مجھ سے آن کی کوئی بات نہ کی
۳۸
څومرہ ښائستہ څومرہ بہ وے توبہ شکن لیلیٰ
کہ وے سمبال چرتہ زما د خوار وطن لیلیٰ
مړاوې رخسار دا اوچې شونډې بہ ئې تازہ شی خپلہ
کہ لږہ ډېرہ مې خوشحالہ شوہ پہ تن لیلیٰ
پہ یو نظر ورتہ اوس سازوغل ښکاریږی ځکہ
چې دہ لوټلې اکثر لارو کښې رھزن لیلیٰ
ھرې یو سترګې تہ ګورم د ھوس ډکہ دہ
څنګہ بې داغہ بہ ساتی خپلہ لمن لیلیٰ
ځان لہ ګجرې او پہ اوربل ګلونہ کېدی څنګہ
چې نابلدہ دہ ساتلې لہ ګلشن لیلیٰ
دا اقبال پہ انتظار د ھغې ورځې یمہ
چې مزدورې آخر بہ شی میر من لیلیٰ
سنبھالا ہوتا اگر یہ مرا وطن محبوب
تو ہوتا توبہ شکن اس کا بانکپن محبوب
یہ خشک ہونٹ ، بجھے گال تازہ ہو جاتے
ذرا بھی ہوتی جو خوش میری خوش بدن محبوب
نہیں رہی اسے پہچان دوست دشمن کی
ہوئی ہے بار ہا غارت یہ سیمِ تن محبوب
بھری ہوس سے ہو جب ہر نگہ تو پھر کیسے
بچائے داغ سے دامن کو خوش چلن محبوب
بنائے کیسے تُو گجرے سجائے زلف میں پھول
کہ تجھ پہ بند رھا ہے درِ چمن محبوب
وہ دن بھی آئیگا اقبال جب یہ مزدورن
بنے گی اپنے بھرے گھر کی مالکن محبوب
۳۹
یو وړکو غوندې کور وے ستا زما
محبت پکښې خور وور وے ستا زما
مونږ د یو بل د زړۂ ژبې پوھېدلے
خو نرے نرے ټکور وے ستا زما
داسې مینہ پہ دنیا چا کړے نۂ وے
پہ دنیا باندې یو شور وے ستا زما
ګډې وډې وے زمونږ پہ ځان کښې خاؤرې
څۂ بہ ښہ وے کہ یو ګور وے ستا زما
لکہ زۂ اقبال پہ تا باندې مئین یم
کاش کہ یو شان لہ دا اور وے ستا زما
گھر کاش کوئی چھوٹا سا ہوتا ترا مرا
جس گھر میں ہوتا پیار ہی بکھرا ترا مرا
اک دوسرے کی دل کی زباں کو سمجھتے ہم
تکرار گاہ بہ گاہ بھی ہوتا ترا مرا
یوں کی نہ ہوگی جگ میں محبت کسی نے بھی
ہوتا بھرے جہان میں چرچا ترا مرا
ہو خاک تیری میری یوں باہم ملی ہوئی
اک قبر میں وجود ہو یکجا ترا مرا
مرتا ہوں جیسے تجھ پہ میں اقبال کاشکے
اتش بجاں وجود ہو ایسا ترا مرا
۴۰
پہ ھر ځل پہ نوی رنګ کښې دې زۂ ستایم
خیال مې بل طرف تہ نۂ ځی کہ زۂ بیا یم
ستا د حسن جلوې ھر خوا تہ خورې دی
جوړہ شوې تماشہ پہ تماشا یم
زۂ دا ستا د وجود برخہ تۂ زما یې
اصلیت یو پہ صورت باندې جدا یم
مونږ پہ یو بل مئین زیات یُو لہ یو بلہ
نۂ پوھېږم چې مجنون یم کہ لیلیٰ یم
ھر ښائستہ صورت دا ستا راتہ ښکارېږی
د نظر فرېب مې نۂ دے ښہ بینا یم
نور ښائستہ راتہ ښکارہ دا کائنات شو
رسېدلے چې مقصد او پہ معنیٰ یم
دا اثر راتہ د”یون” ښکاری اقبالہ
چې پہ رنګ کښې د بابا غزل سرا یم
بہ ہر رنگ تیرا ہی مدح سرا ہوں میں
کسی اور کو کب خیال میں لاتا ہوں میں
جدھر دیکھو ادھر ہی جلوہ نما ہے تُو
بنا خوب تماشے پہ تماشا ہوں میں
تُو وجود مرا اور ترا وجود ہوں میں
اصل اک صورتاً جدا ہوں میں
حد سے بڑھ کے ہم اک دوسرے کو چاہتے ہیں
کیا خبر ہے مجنوں کہ لیلیٰ ہوں میں
ہر حسیں صورت میں تُو نظر اتا ہے مجھے
یہ دھوکہ نہیں نگاہ کا ، بینا ہوں میں
یہ اثر “یون” کا ہی اقبال ہے سب
جو رنگِ بابا میں غزل سرا ہوں میں
۴۱
سترګې دې تورې کړې پہ زړونو باندې اور اولګېد
مخامخ غرۂ کښې نخترونو باندې اور اولګېد
ستا د وصال باران مودې اوشوې چې نۂ ورېږی
د زړۂ پټی کښې مې ګلونو باندې اور اولګېد
تاؤ د نظر غواړی چې ویلی شی ګټ شوې واؤرہ
وچ شو بېخی پہ دریابونو باندې اور اولګېد
دنګې مانړۍ او محلونہ ھیچا اونۂ سول خو
دا د وښو لرګو کورونو باندې اور اولګېد
ستا اننګو کښې چې سرخی ئې د حیا اولیدہ
غوټۍ خجل شوې ګلابونو باندې اور اولګېد
کلی کښې ھر سړے پہ خپل رنګ کښې لړلے وینم
ښکاری پہ ښار کښې پہ رنګونو باندې اور اولګېد
اقبالہ خیال ئې ھغہ شان زما دخیال مېلمہ دے
ګنی پہ ټولو امیدونو باندې اور اولګېد
اُس نے جونہی آنکھ میں سرمہ ڈالا دلوں کو آگ لگی
سامنے کوہ پہ اُگنے والے چیڑھ کے درختوں کو آگ لگی
ہوئی ہے اک مدت کہ تیرے وصل کی بارش نہیں ہوئی
کشتِ دل میں جو بھی کھلے تھے ان پھولوں کو آگ لگی
پگھل گئیں برفانی چٹانیں اُسکی نظر کی تابش سے
بہتے دریا سوکھ گئے یوں دریاؤں کو آگ لگی
اونچے اونچے قصر ومحل کو کس نے ہے جلایا اب تک
تنکوں، گھاس اور لکڑی کے ہی بنے گھروں کو آگ لگی
تیرے دہکتے رخساروں میں سرخی حیا کی جب دیکھی
غنچے گل کے ہوے شرمندہ سرخ گلوں کو آگ لگی
اپنے اپنے رنگ میں رنگا ھر انسان ہے گاؤں کا
یوں لگتا ہے گویا شہر کے سب رنگوں میں آگ لگی
مہماں ہے پہلے کی ظرح مرے دل میں خیال یار ابھی
ورنہ ہے اقبال مری سب امیدوں کو آگ لگی
۴۲
جانان مې راتہ ښائی تصویرونہ رنګ پہ رنګ
د مینې مې پاسې زړۂ کښې موجونہ رنګ پہ رنګ
پہ اصل کښې یوې خاؤرې نہ واړہ راټوکېږی
راوړی پسرلی چې دې ګلونہ رنګ پہ رنګ
بنیاد ئې ترنم دے چې پہ زړۂ باندې اثر کړی
جوړ کړی مطربانو دی سازونہ رنګ پہ رنګ
د زړونو څۂ مجال دے چې بہ پاتې شی پہ وس کښې
پلؤ د لاندې کېږی سترګکونہ رنګ پہ رنګ
مېخوار خو د نشې سرہ مطلب دے ساقی جانہ
انواع انواع شراب دی او رنګونہ رنګ پہ رنګ
نور ھیڅ نیشتے پہ ھر څۂ کښې مې یار دے ګېر چاپېرہ
پریوځی پہ دھوکہ کښې عالمونہ رنګ پہ رنګ
اقبالہ پہ کثرت کښې د وحدت رنګ نمایاں دے
د زړۂ پہ سترګو ګورہ منظرونہ رنګ پہ رنګ
جلوے دکھا رہا ہے مجھے یار رنگا رنگ
برپا ہیں دل میں عشق کے منجھدار رنگا رنگ
کھلتے ہیں ایک خاک سے فصل بھار میں
گلہائے نوع بہ نوع چمن زار رنگا رنگ
ہوتا دل پہ صرف ترنم ہی کا اثر
رکھتے ہیں یوں ہی ساز یہ فنکار رنگا رنگ
دل اختیار میں ہو یہ کس کی مجال ہے
غمزے تۂِ نقاب ہوں جب یار رنگا رنگ
میکش کو تو ہے بیخودی مطلوب ساقیا
چلتے ہیں ورنہ جام نشہ دار رنگا رنگ
بس یار ہی کے جلوے ہیں عالم میں چار سُو
باقی ہیں سب سراب پر اسرار رنگا رنگ
اقبال ہے دوئی ہی سے وحدت کی روح عیاں
دیکھو دلِ بصیر سے انوار رنگا رنگ
۴۳
پہ وار تېرې فصل اوشی باران څۂ
اوس پہ مرګ کہ زما راشی جان څۂ
چې راوالوځی بادونہ د صر صر
کہ څوک بہ اوکری پہ باغ کښې ګلان څۂ
د عشق غم مې زړۂ ژوندی وجود کښې مړ کہ
پہ مړ زړۂ کښې بہ ټوکېږی ارمان څۂ
مرګہ سترګہ مې لہ تانہ کلہ سوزی
د عمری رنځور وتنہ پہ ځان څۂ
چې خواھش د ډوبېدو د سړی خپل شی
راتہ ښائی دا زورونہ طوفان څۂ
پہ تنکۍ مینہ جدا ئې کړم لہ یارہ
نور ظلمونہ بہ پہ ما کړہ اسمان څۂ
ما اقبال لرہ ښائست چې پکشې نشتہ
کہ ھر څو نہ ھم ښائستہ شی جھان څۂ
کھیت جب جل گیا پھر برسا بھی باران تو کیا
موت کے بعد اگر آیا بھی جانان تو کیا
تیز اور تند ہواؤں کی جہاں یلغار ہو
پھول اُس باغ میں بوئے کوئی انسان تو کیا
مار ڈالا ہے غمِ عشق نے دل کو میرے
اب مرے دل میں ہو ارمان تو کیا
اے اجل تجھ سے مھے خوف نہیں آتا ہے
کب کا بیمار ہوں جائے اگر جان تو کیا
ڈوبنا چاہتا ہو آپ ہی انسان اگر
جوش ایسے میں دکھائے کوئی طوفان تو کیا
بتِ نازک تو جدا کردیا ہے مجھ سے
اور توڑے گا ستم چرخ ستم ران تو کیا
اِس میں کچھ میری کشش کا نہیں ساماں اقبال
رشکِ جنت بھی ہو عالم امکان تو کیا
۴۴
حُسن عشق پېدا کۂ بیا ئې ځان باندې مئین کۂ
غم ئې پرې انبار کہ پہ دردونو دړمن کہ ئې
وې ښودہ جلوہ ورتہ نقاب د لاندې پټہ
وې سېزۂ پہ اور باندې بېرون ئې لۂ وطن کۂ
قېس نہ ئې مجنون کۂ د صحرا شکې ئې چاڼ کړې
ملوک ئې کۂ بھرام ئې کۂ ورسر ئې پہ ختن کۂ
بلبل تہ نظارہ ئی پہ ګلونو کښې ښکارہ کړہ
سوختہ ئې پہ ځیګر کۂ نغمہ ګر ئې د چمن کۂ
راز ئې ورتہ اوښودۂ خو ټول ئې روښان نۂ کۂ
لار د شرعې ګوری دروېزہ ئې د مخزن کۂ
اسباب ئې پېدا کړی ورلہ ټول وو لۂ ازلہ
عشق غریب مجبورہ خامخا ئې پرې تورن کۂ
تېر بہ یو ساعت ھم بې یارہ پکښې نۂ کړم
ھر څومرہ ښائستہ ئې کۂ فردوس یا کۂ عدن کۂ
اوس خو پس وپېش مۂ کوہ زر راشہ جانانہ
اوس غاسلانو مې خاکی وجود کفن کۂ
ګنج ومہ اقبالہ پټ او پټ بہ شمہ پاتې
څوک ھم خبر نۂ شو چې ئی غر زما مسکن کۂ
حسن نے پیدا عشق کیا پھر عشق کو خود پہ نثار کیا
عشق کے دل پہ دنیا بھر کے غموں کو لا انبار کیا
روزِ ازل دکھایا جلوہ عشق کو زیرِ حجاب اپنا
عشق کو اِس جلوے نے جلایا اور غریب دیار کیا
قیس کو اُس نے مجنوں بناکر خاکِ صحرا چھنوائی
اُس نے ملوک بھرام کو بھی سودائی دشتِ تتار کیا
بُلبل کو نظارا دکھایا اتشِ گل کا گلشن میں
پھر اس سوختہ جانِ جگر کو باغ میں نغمہ بار کیا
سرِ عشق بھی حسن نے کھولا عشق پہ لیکن تھوڑا سا
شرع میں عطا درویزہ کو “مخزن” پر اسرار کیا
خود ہی بنارکھے تھے ازل سب اسباب مشیّت نے
عشق غریب کو ویسے ہی بدنام ذلیل و خوار کیا
لمحہ بھر بھی میں نہ رہوں گا اس میں اپنے یار بغیر
چائے مسکن میرا عدن یا جنت کا گلزار کیا
آ جانانہ جلد شتابی آکہ میرے پہنانے کو
غسالوں نے میرے لئے ہے خاکی کفن تیار کی
میں تھا چھپا خزانہ اے اقبال چھپا رہ جاؤں گا
عشق جفا پیشہ نے میرا جو مسکن کوہسار کیا
۴۵
حسن لاس کښې مې سر کړے رباب راکہ
ورسرہ ئې ھم د مینې کتاب راکہ
لہ ازلہ یار جدا کړمہ لہ ځانہ
دړدېدلے ئې څۂ داسې عذاب راکہ
عمر تېر شو پوھہ نۂ شوم پہ حساب څۂ
ژوند ئې ما لرہ پہ مثل د خواب راکہ
پہ محفل کښې ئې مقصودہ ارائی وہ
جام ئې مال د مستۍ و شراب راکہ
لا راغلے ھدو نۂ وۂ چې بیا تېر شو
مختصر غوندې ئې وخت د شباب راکہ
پہ صحرا کښې پسې ګرځم سوے لوے
پہ قدم قدم ئې داسې سراب راکہ
د ھر چا زړۂ داسې ھر ګل سرہ انخلی
کہ یواځې ئې زړۂ مالہ خراب راکہ
یو ئې شرط د پاس کېښود اقبالہ
بل د پوھې نہ بھر ئې نصاب راکہ
سر میں لا کر حسن نے میرے ہاتھ میں ایک رباب دیا
ساتھ ہی اس نے عشق بھی اپنا مجھکو مثلِ کتاب دیا
خود سے جدا کر ڈالا مجھ کو اُس نے روزِ ازل سے ہی
یوں پھر اپنی جدائی کا اُس نے مجھ کو سخت عذاب دیا
زندگی ساری بیت گئی اور سمجھا نہ میں تعبیر اس کی
ہائے اس نے جیون بھی تو مجھکو مثلِ خواب دیا
محفل میں مقصود تھی اس کو اپنی ہی خود ارائی
اس لئے اس نے اک کیف آور مجھ کو جامِ شراب دیا
اس کی تلاش میں صحرا بہ صحرا پھرتا ہوں میں سوختہ جاں
قدم قدم پہ راہِ جنوں میں مجھ کو اس نے سراب دیا
اس نے کیا ہے ھر دل کو گل کی محّبت میں پاگل
یا پھر اس نے مجھ کو ہی یہ دل خانہ خراب دیا
پاس ہونے کی شرط لگا رکھی ہے ساتھ اقبال اور
میری سمجھ سے بالا بالا ہے مجھ کو نصاب دیا
۴۶
عشق یمہ اے حسنہ زۂ تول دې نظر یمہ
خاؤرہ یم بې شکہ زۂ عظمت نہ خپل خبریمہ
زمکې، اسمانونو ،غرونو چا ھم غاړہ کښې نۂ ښوہ
ځاۓ مې کړې پہ زړۂ کښې خپل زۂ ھغہ ځیګر یمہ
پاتې حق حیران شُو راتہ واړہ عالمونہ چې
اور تہ مې ور ودنګل عشق یم بې خطر یمہ
چا ھم معلوم کړے مې تراوسہ لا پایاب نۂ دے
موج یمہ ، غُلۍ یمہ خور وور سمندر یمہ
څومرہ چې د شمعې پہ شان سر رانہ پرې کېږی ځی
لا پرې تازہ کېږمہ زۂ یو داسې سر یمہ
د ورځې د ازل د څښو اثر اقبالہ کلہ ځی
ورک خمار خمار یمہ مست یم قلندر یمہ
عشق ہوں میں عشق ہوں صاحبِ نظر ہوں میں
کیا مقامِ خاک ہے خود سے باخبر ہوں میں
کوہ، سما تھے خوف میں ایک واں پہ میں ہی تھا
رکھ دیا اپنی جاں میں تجھے وہ جری جگر ہوں میں
بے خطر میں کود پڑا اتشِ نمرود میں
حیرتی ہیں سب جہاں عشقِ بے خطر ہوں میں
سر بریدگی کے بعد شمع ہے جوں تازہ دم
رہتا ہے جو عشق میں تیغ جُو وہ سر ہوں میں
جاتا ہے اقبال کب نشّہِ جامِ ازل
ڈوبا ہوں خمار میں مست قلندر ہوں میں