علاقہ اگرور میں ادبی شعری روایت
کسی ملک، قوم اور علاقہ کی ایک مخصوص تاریخ ہوتی ہے جس میں اُس ملک، قوم اور علاقہ کے سیاسی، تہزیبی، علمی ادبی، مذہبی اور ثقافتی خدوخال اور احوال و اثار محفوظ ہوتے ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ علاقہ اگرور کی کوئی مخصوص جامع تاریخ میری نظر سے نہیں گزری، اس لئے میں اس علاقہ کے علمی ادبی اور ثقافتی احوال کما حقہ بیان نہیں کرسکوں گا۔
اس ضمن میں، میں محقق پروفیسر بشیر احمد سوز کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب (ہزارہ میں اردو زبان وادب ) کی تاریخ میں علقہ اگرور کے انیسویں صدی کے اواخر کے چار شعراء کا مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے۔
ان میں پہلا شاعر گوہر آمان خان گوہر تھا وۂ تین زبانوں اردو عربی ، فارسی کا شاعر تھا۔ وہ صاحب دیوان شاعر تھا ان کایہ فارسی دیوان ان کی وفات (۱۸۹۴) کے بعد ان کے بھائی صوفی عزیزالرحمٰن نے شائع کیا تھا۔ یہ دیوان ایک سو بیس صفحات پر مشمل تھا۔
اگرور کا دوسرا شاعر صوفی عزیزالرحمٰن تھا جو تین زبانوں اردو، پشتو فارسی کا شاعر تھا مگر ان کا کوئی مجموعہ منظرعام پر نہیں آیا۔ البتہ بھائی گوہر آمان گوہر پر لکھا ہوا مرثیہ موجود ہے۔
تیسرا اگرور کا شاعر امیر زمان خان امیر تھا جو شمدھڑہ کا رہنے والا تھا۔ یہ بھی تین زبانوں کا شاعر تھا۔ اس کی صرف ایک غزل دستیاب ہے۔ اگرور کا چوتھا شاعر عمر خان عمر تھا جو شاہکوٹ کا رہنے والا تھا اس کا کلام (گلزار عمر) اسکے بیٹے نے شائع کیا تھامگر نایاب ہے۔ اس کی بھی ایک غزل دستیاب ہے۔ میں ان چاروں حضرات کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اگرور میں سب سے پہلے علم و ادب کی بنیاد ڈالی اور اہلیان اگرور کو ادب و ثقافت سے روشناس کیا۔ میں ان چارو شعراء کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ چاروں مرحوم ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے بارگاہ الہی میں دعائے مغفرت مانگتا ہوں۔ ﷲ تعالےٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ ان شعراء کی وفات بعد اگرور میں شاعر تو پیدا ہوئے مگر کوئی بڑا نام سامنے نہیں ایا۔ تقریباً ایک صدی بعد بیسویں صدی کے نصف میں اگرور کا اقبال پھر چمکا اور اگرور کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک بہت بڑے شاعر محمد اقبال خان نے جنم لیا۔ اقبال نہ صرف اگرور بلکہ ھزارہ پختون خوا مې مقبول ہیں، ان کا غزلیات کا دیوان ۱۳ سو سے زائد غزلیات پہ مشتمل ہے۔ یہ دیوان پشتو کے نئے حروف تہجی یعنی ۴۴ حروف جو باڑہ گلی میں مقرر کئے گے تھے پر مکمل دیوان ہے۔ اس میں حرف(ژ) کو بھی برتا گیا ہے جو شاید اس سے قبل کسی بھی شاعر نے نہیں برتا، ڈیڑھ سو زائد پابند او ازاد نظمیں، دو سو پشتو ماھیے کوکې کے نام سے, ھائیکو، شکرې، ۲۱ چاربېتې، چاربیتہ میں ہر قسم موجود ہے ان میں دو زنځیرۍ چاربیتې ہیں جو اس سے قبل ہزارہ میں کسی نے نہیں لکھی، نیمکۍ، لوبہ، بدلې، ملی نغمے، قطعات، رباعی اور کچھ ټپے غرض شاعری کی کوئی صنف بھي ان کی دسترس سے باھر نہیں انکی چھ کتابیں تا حال چھپ چکی ہیں۔ جن کے نام زیل ہیں (۱) رښتینې جذبې (۲) تغزل (۳) د وصال جام (۴) چاربېتې پوھنہ (۵) حسېن ملک پوری (تحقیق وتنقید) (۶) کوکې اس کے علاوہ (۷) حافظ الپوری (تحقیق و تنقید ) (۸) ډیوہ او غزل (تذکرہ ) (۹) کُړچ(د پښتو اولسی شاعری) (۱۰) دیوان (۱۱) “د پښتو اولسی شاعرۍ اصطلاحات (۱۲) مشکل کشاءِ طالبان اپنے تقریظ کے ساتھ (۱۳) ملغلرې تحقیقی اور تنقیدی مضامین آن لائن پړھی جاسکتی ہیں۔ کچھ کتابیں زیر طبع ہیں۔ پشتو عوامی شاعری کی سمجھ میں وہ اتھارٹی ہیں۔ حال ہی میں انکے دو مضامین غزل کے ۷۵ سال اور چاربیتہ کے ۷۵ سال پاکستان اکیڈیمی ادبیات کے میگزین میں چھپے ہیں۔
کوکی اقبال خان کے پشتو ماھیا کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ ماھیا پشتو زبان میں ان کی جدید اور مقبول ایجاد و اختراع ہے۔ خدا کرے کہ یہ ماھیا اردو ماھیے کی طرح قبولیت کا درجہ حاصل کرے۔ غزلیات میں غیر منقوطہ، ذوالقافتین، ذات القافتین، صنائع بدائع اور کئی طرح کی فن کاری نظر آتی ہے یہاں تک کہ ایک غزل پہ لب بستہ نہیں ہوتے۔
شاعری پاکیزہ جذبات، نفیس خیالات او عمیق محسوسات کی پُر معانی لفظیات میں تخلیقی مہارت کے ساتھ سمونے کا ایک فن ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال خان کی شاعری انکے جذبات، خیالات اور محسوسات کی بہترین ترجمان ہے۔
بنیادی طور پر اقبال خان غزل کے شاعر ہیں، انکی غزلوں میں سادگی، نفاست، شوخی و رنگینی نزاکت، گھلاوٹ، مترنم تغزل اور معنی افرینی پائی جاتی ہے۔ مضامین کے اعتبار سے بھی ان کی غزل میں زندگی کی رنگا رنگیاں، سماجی حالات رسم روایات اپنے عصر کی آواز سیرت اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا اظہار بھی شامل ہے۔
انکی غزلیات میں کلاسیکی روایت کے ساتھ جدت کا امتزاج بھی ملتا ہے۔ روایت ہی سے جدت جنم لیتی ہے شاعری روایت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی جسطرح موت کے بغیر زندگی کا تصور خزان کے بغیر بہار کا تصور شام کے بغیر صبح کا تصور نا ممکن ہے اسی طرح روایت کے بغیر شاعری کا تصور بھی محال ہے۔ اقبال خان نے پشتو شاعری کی جملہ اصناف کو خوب مہارت سے برتا ہے۔
اقبال خان کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پختون ملی حمیت (پختون ولی) کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر پشتون قوم اور پشتو کے سر کو فخر سے بلند کیا ہے۔
کسی بڑے شاعر کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اسکی شاعری پڑھنے سننے والوں کو اپنی سرگزشت معلوم ہوتی ہے اسی خوبی کی بنا پر اقبال خان علاقہ اگرور، ہزارہ اور پختون خوا میں ایک مقبول اور بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔
اقبال خان کی شاعری کے اسی وصف اور خوبی(از دل خیزد و بر دل رہزد) نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے انکی پچاس پشتو غزلیات کو اردو میں منتقل کردیا۔ اگر یہ ترجمہ مقبول خاطر ہو تو تو شکریہ اگر میری کم فہمی سے ترجمہ میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو معزرت خواہ ہوں۔
تُو آپ ہی زبان زد عالم ہے ورنہ میں
یک حرف آرزو ئے بلب نا رسیدہ ہوں
پروفیسر محمد زمان مضطر